Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ibrahim Baloch
  4. Pakistan Mein Ghairat Ke Naam Par Qatal, Khamosh Pukaar

Pakistan Mein Ghairat Ke Naam Par Qatal, Khamosh Pukaar

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل، خاموش پکار

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ایک سنگین مسئلہ ہے جو ہر سال ہزاروں خواتین کی جان لے لیتا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کا اندازہ ہے کہ سالانہ تقریباً 1000 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ قتل معاشرتی اور ثقافتی اقدار کی آڑ میں کیے جاتے ہیں اور عموماً خاندانی عزت کی بحالی کے نام پر کیے جاتے ہیں۔ 2022 کے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ کے جنوبی حصوں میں کم از کم 217 افراد بشمول 152 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئے۔

غیرت کے نام پر قتل کا تصور قدیم زمانے سے موجود ہے جہاں خاندانی عزت اور وقار کی حفاظت کے لیے افراد کو قتل کیا جاتا تھا۔ یہ عمل قدیم قبائلی معاشروں میں زیادہ عام تھا، جہاں خواتین کو خاندانی وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، یہ رواج جدید معاشروں میں بھی اپنی جگہ بناتا چلا گیا۔ پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں روایتی اور قدامت پسند اقدار کا غلبہ ہے، غیرت کے نام پر قتل ایک عام فعل بن گیا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کی وجوہات متنوع ہیں اور ان میں سب سے عام وجوہات درج ذیل ہیں: شادی کے معاملات، معاشقے اور تعلقات، اور جنسی زیادتی۔ اکثر لڑکیوں کی شادی ان کی مرضی کے خلاف کی جاتی ہے اور اگر وہ اپنی مرضی سے شادی کرنے کی کوشش کریں تو انہیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی کسی سے محبت کرتی ہے یا کسی کے ساتھ تعلقات میں ملوث ہوتی ہے تو اس پر غیرت کے نام پر حملہ کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکیوں کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے تاکہ خاندانی وقار کی بحالی ہو سکے۔

غیرت کے نام پر قتل کے اثرات صرف متاثرہ افراد تک محدود نہیں ہوتے بلکہ پورے خاندان اور معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ عمل خوف و ہراس اور عدم تحفظ کو فروغ دیتا ہے اور خواتین کو معاشرتی اور اقتصادی ترقی میں حصہ لینے سے روک دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ عمل خواتین کے حقوق کی پامالی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد کا فقدان ہے۔ اکثر واقعات میں ملزمان کو سزا نہیں ملتی جس کی وجہ سے یہ عمل جاری رہتا ہے۔ اس کے علاوہ، معاشرتی طور پر بھی غیرت کے نام پر قتل کو بعض حلقوں میں جائز سمجھا جاتا ہے جس سے اس کے خلاف اقدامات اٹھانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اقدامات کے لیے مختلف سطحوں پر کوششیں کی جا رہی ہیں جن میں قانون سازی، آگاہی مہمات، اور تعلیمی اقدامات شامل ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت قوانین بنائے جا رہے ہیں تاکہ مجرموں کو سزا دی جا سکے۔ عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے آگاہی مہمات چلائی جا رہی ہیں تاکہ اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھا جا سکے۔ تعلیمی اداروں میں خواتین کے حقوق اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف تعلیم دی جا رہی ہے تاکہ نئی نسل اس مسئلے سے آگاہ ہو سکے۔

غیرت کے نام پر قتل ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ حکومت، غیر سرکاری تنظیمیں اور عوام کو مل کر اس مسئلے کے حل کے لیے کام کرنا ہوگا۔ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف موجود قوانین کا سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔ عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے مہمات چلائی جائیں۔ تعلیمی اداروں میں خواتین کے حقوق کی تعلیم دی جائے۔ غیرت کے نام پر قتل کی شکار خواتین اور ان کے خاندانوں کو معاشرتی اور اقتصادی حمایت فراہم کی جائے۔

غیرت کے نام پر قتل پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے جو خواتین کے حقوق کی پامالی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بنتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں خواتین کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور انہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کا موقع دیا جا سکے۔

Check Also

6 Nukaat Aur Markaz, Kuch Nahi Badla

By Muhammad Aamir Hussaini