Hum Aur Inqilab
ہم اور انقلاب
ہر کوئی یہاں حالات سے تنگ نظر آ رہا ہے ہر کوئی مہنگائی بدآمنی لوڈشڈنگ کا رونا رو رہاہے یہ چھوڑیں اب تو زبان بھی احتیاط سے استعمال کرنے کا وقت ہے کیونکہ اگر زباں سچ پر گویا ہوئی تو پھر حالات مزید بگڑنے کا خطرہ ہے۔۔
اگر کسی سے پوچھوں کے ان تمام مسائل کا حل کیا ہے تو ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ انقلاب۔ مگر ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ انقلاب ایسی کوئی چیز نہیں جو دوڑ کر ہمارے ملک آئے گا اور ہمارے مسائل حل ہونگے، بلکہ انقلاب تو ہمارے در پر کھڑا ہے مگر ہم نے اسکا راستہ خود روکا ہے۔
انقلاب صرف باتوں، جذباتی تقاریر سے نہیں آتا بلکہ انقلاب قربانیاں مانگتا ہے جان کی مال کی اولاد کی جائیداد کی خواہشات کی اور بہت سارے چیزوں کی۔ لیکن شاید ہم اسکے لے تیار نہیں لیکن اس کے لیے ضرور تیار ہے کہ انقلاب آجائے۔ ہم میں انقلاب پسند بہت ہے مگر اسکی طرف قدم بڑھانے والے نہیں۔
ہم خود کو عوام میں گنتے ہی نہیں جب کوئی مسلہ آتا ہے تو ہمارے منہ سے نکلتا یہ ہے کہ اگر عوام نکل گئی تو مسلہ حل ہو جائے گا مگر ہم اس وقت بھی خود کو عوام میں نہیں گنتے کیونکہ ہم سب اپنے نظر میں خواص ہے اور انقلاب عوام لاتی ہے خواص نہیں۔
ہم میں ایسی خصلتیں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہے جو انقلاب کو بالکل پسند نہیں۔
انقلاب کے لیے اٹھنا پڑتا ہے پسینے سے شرابور سخت گرمی میں ٹھنڈک سے منجمد سخت سردی میں، تلواروں کے نوک پر مسکراہٹ سے انقلاب آتا ہے لیٹ کر توپ کے سامنے ہنس کر انقلاب آتا ہے۔
ہر دن نئی فلم دیکھنے سے انقلاب نہیں آتا، پب جی اور فری فائر سے انقلاب نہیں آتا، ٹک ٹاک پر لپسنگ کرکے اور فلٹرلگا کر انقلاب نہیں آتا، جذباتی سٹیٹس لگا کر انقلاب نہیں آتا۔
انقلاب اسں قوم کا مقدر بنتا ہے جو عملی جدوجہد کرکے انکو پانے کی کوشش کرتا ہے، جس کے پاس ایک مقصد ہوتا ہے، جس قوم کے نوجوان اپنے مسائل سے باخبر اور محب وطن ہوتے ہیں جو فحاشی اور عریانی سے دور اپنے اچھے مستقبل کے متلاشی ہوتے ہیں۔
اگر ہم یہ تصور کریں کہ اس حال میں انقلاب ہمارا قدم چومے گا تو پھر اسکے برعکس ہمیں سکون سے مرنے کا انتظار کرنا چاہیے۔ اپنا ایک شعر آخر میں پیش خدمت ہے کہ۔۔
ایک گھونٹ زہر کا پینا ہے
اسکے بعد میں نے جینا ہے