Anokha Karobar
انوکھا کاروبار
میں نے ایک ایسا بازار دیکھا ہے جس میں خون بہانے کے بدلے ہیرے ملتے ہیں چاہے وہ کسی کا بھی ہو لیکن ہونا انسان کا چاہیے۔ روز بروز یہ کاروبار کشادہ ہوتا جا رہا ہے اور خون کے نئے دریا بن رہے ہیں جس سے کچھ لوگوں کے پیٹ سیراب ہو رہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کاروبار کوئی اور یا خلا سے آئی ہوئی مخلوق نہیں کر رہی بلکہ وہ بھی سانس لینے والے موت کی چوکھٹ پر کھڑے مٹھی کے بنے چند مجسمے ہیں۔ اس کاروبار کو وہ اتنا وسیع و غریض کر چکے ہیں کہ نہ مذہب اسکا راستہ روک سکتا ہے اور نہ کوئی اور چیز۔
اس کاروبار کے لیے چند جگہیں خاص طور پر مختص کی گئی اور وہاں کے لوگوں کے شعور جیسے حساس چیز کو لہولہان کرکے وہ انکے خون کے ہر قطرے کے عوض بڑا منافع حاصل کررہے ہیں۔
خون چاہے مولوی کا ہوں، شیر خوار بچوں، کمزور عورتوں، فوجی سپاہیوں کا، پولیس اہلکاروں یا سیاستدانوں کا یہ کوئی خاصیت نہیں رکھتا بس خون فقط کسی انسان کا ہونا چاہیے۔
اس بازار کے تجار احساس کے مادے سے نا اشنا ہوتے ہیں ضمیر ہوس کا شکار ہو کر مر چکا ہوتا ہے خون بہانا انکا بہترین مشغلہ اور مقصد صرف زوال پذیر حیات کے لئے زوال پذیر چند سونے کے سکے۔
افسوس یہ ہے کہ وہ لوگ بھی غفلت اور کاہلی کا شکار نظر آتے ہیں جنکے لہوں سے محلوں کو سجا یا جا رہا ہے، انہوں نے اتحاد کے آئینے کو اپنے ذاتی مفاد اور انا کے زد میں فاش فاش کر دیا ہے۔ انکے ہر شہر ہر کوچے ہر گھر، مسجد، مکتب، جامعہ پر خون کے دھبے ہیں مگر اب وہ اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ انہیں نظر ہی نہیں آتے۔
اس بازار کے اس گھناونے کاروبار کو یہی لوگ ختم کر سکتے ہیں جن کے خون سے اس کاروبار کو روز بروز تقویت مل رہی ہے۔
اندھیروں کو ختم کرنے کے لیے بجھے ہوئے چراغوں کو جلانا ہوگا مگر اس اندھیرے میں وہ لوگ اتنے بد حواس ہو چکے کہ وہ چراغوں کو ہی کھو چکے ہیں۔ اس حال کو دیکھ کر آخر میں دعا کا آپشن ہی رہ جاتا ہے اور منہ سے یہی الفظ نکلتے ہیں کہ خدا اس اجڑے ہوئے دیار کو پھر آباد کرے۔

