Sonia
سونیا
اس کا نام سونیا تھا۔ وہ احمد صاحب کی بیٹی اور میری سب سے پہلی دوست تھی۔ پڑوس میں رہتی تھی۔ ہم عمر تھی۔ ہم ایک ہی اسکول میں آگے پیچھے داخل ہوئے۔ درجہ تو ایک تھا لیکن سیکشن مختلف تھے۔
ایک بار میں نے امی سے کہا، میرا اس سیکشن میں ٹرانسفر کروادیں، جسے باری صاحب پڑھاتے ہیں۔ باری صاحب اسکول کے مالک اور پرنسپل تھے۔ میں نے کیس یہ بنایا کہ باری صاحب کی کلاس میں مجھے زیادہ اچھا پڑھنے اور سیکھنے کو ملے گا۔ لیکن سچ یہ تھا کہ سونیا ان کی کلاس میں تھی۔ میں اس کے ساتھ بیٹھنا چاہتا تھا۔
وہ پلان بری طرح ناکام رہا۔ میری کلاس ٹیچر مس شگفتہ قادری آڑے آگئیں۔ امی میری درخواست لے کر اسکول گئیں تو انھیں مس شگفتہ نے راستے میں روک لیا۔ پھر مجھے پیار چمکار کے اس ارادے سے باز رکھا۔
سونیا دوسرے بچوں کے ساتھ اشٹاپو کھیلتی تھی۔ میں نے وہ کھیل اسی سے سیکھا۔ کنچے کھیلنے اسے میں نے سکھائے۔ لوڈو اور کیرم بھی ساتھ کھیلا۔ ایک دن سونیا کی کوئی آنٹی اس کے ہاں آئیں۔ انھوں نے ہمیں کہانیاں سنائیں۔ شام کو میں نے پوچھا، سونی، تمھاری آنٹی کہاں گئیں؟ اس نے بتایا، انکل اپنی کار میں آئے اور انھیں لے گئے۔ میں نے کہا، میں بھی بڑا ہوکر بڑی سی کار میں آوں گا اور تمھیں لے جاوں گا۔ اس وقت میں پہلی یا دوسری جماعت میں تھا۔ اس کی امی اور بہن خوب ہنسیں۔ یہ بات ہماری امی کو بھی بتائی۔ امی نے قہقہہ لگایا۔
امی بہت کم ہنستی تھیں۔ ڈپریشن کی وجہ سے اکثر خواہ مخواہ پریشان رہتیں۔ لیکن جب خوشگوار موڈ ہوتا تو کھلکھلا کے ہنستیں۔ ایک قہقہہ بے ساختہ ان کے منہ سے نکلتا۔
قائداعظم پبلک خانیوال کا پہلا پرائیویٹ اور کوایجوکیشن انگریزی اسکول تھا۔ وہ پانچویں جماعت تک تھا۔ اس کے بعد گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لینا پڑتا۔ ان دنوں، یعنی 80ء کی دہائی میں سرکاری پرائمری اسکولوں میں انگریزی نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ چھٹی جماعت میں ہمیں دوبارہ اے بی سی سے آغاز کرنا پڑا۔
پانچویں جماعت کے بعد بابا نے میرا داخلہ گورنمنٹ ہائی اسکول میں کروادیا۔ سونیا گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول چلی گئی۔ پرائمری اسکول میں ہم ریسس میں ساتھ بیٹھ کر لنچ کرتے۔ ہائی اسکول کی ریسس میں بیزاری ہوتی۔ میں چھتے ہوئے کنویں کی دیوار پر بیٹھ کر سوکھے پتے توڑتا رہتا۔
چھٹی جماعت کے سالانہ امتحان مارچ 1985 میں ہوئے۔ انھیں دنوں چھوٹے ماموں خانیوال آئے اور مجھے معلوم ہوا کہ ہم کراچی شفٹ ہورہے ہیں۔ بابا نیشنل بینک میں کام کرتے تھے۔ ان کا تبادلہ نہیں ہوا تھا، اس لیے چھوٹے ماموں ساتھ لے جانے آئے تھے۔ گھر کا کچھ سامان ٹھکانے لگادیا گیا، کچھ ماموں نے مال گاڑی میں بک کروادیا۔ اس دن میں بھی ان کے ساتھ ریلوے اسٹیشن گیا تھا۔
میں مستقل طور پر کراچی نہیں جانا چاہتا تھا۔ بار بار امی سے کہتا، ہم گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد واپس آجائیں گے نا؟ امی تسلی دیتیں، ہاں آجائیں گے۔ ان کا خیال ہوگا کہ کراچی جاکر میں سب بھول جاوں گا۔
کراچی میں ہمارا پورا خاندان آباد تھا۔ ننھیال، ددھیال اور دور پار کے بیشتر رشتے دار انچولی میں رہتے تھے۔ ہماری نانی اماں کو کئی ایسے اعزا ملے جن سے امروہے میں ملی تھیں یا چالیس سال بعد کراچی میں ملاقات ہوئی۔ میں نے کئی قریبی رشتے داروں کو پہلی بار دیکھا۔ ان میں فرسٹ کزن بھی شامل تھے۔
ابتدائی دو مہینے طوفانی رفتار کے تھے۔ وہ عرصہ ہم نے چھوٹے ماموں کے گھر گزارا۔ ہر روز کسی رشتے دار کے گھر جاتے یا کوئی نہ کوئی ہم سے ملنے آتا۔ بہت سے نئے دوست بنے۔ امروہے کی اردو سننے کو ملی۔ شیعہ محلے میں ہم مسلکوں کا مجمع پایا۔ کئی امام بارگاہوں کی زیارت کا موقع ملا۔
دو ماہ بعد ہم نے ایک پورشن کرائے پر لے لیا۔ اب خانیوال کی یاد آئی۔ وہ خط لکھنے کا زمانہ تھا۔ بابا کے علاوہ خانیوال کے کئی دوستوں کو خط لکھے۔ سونیا کو بھی خط بھیجا۔ ایک عام سا روایتی خط۔ ہم ٹھیک ہیں۔ تم لوگ کیسے ہو؟ پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟ اشتیاق احمد کا نیا ناول پڑھا؟
میں نے چند ماہ میں دو تین خط بھیجے۔ یاد نہیں کہ جواب آیا یا نہیں۔ آیا تو میں نے توجہ سے نہیں پڑھا یا سنبھال کر نہیں رکھا۔ نہیں آیا تو سوچا نہیں کہ کیوں نہیں آیا۔ پھر بابا کا تبادلہ کراچی ہوگیا۔ خانیوال خط بھیجنے کا سلسلہ بند کردیا۔
گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد میرا اسکول میں داخلہ ہوگیا۔ نئے کلاس فیلوز بنے۔ اشتیاق احمد کے ناول پڑھنے کا شوق بھی جنون بن گیا۔ ان کے ناولوں کے آخر میں ایک سوال ہوتا تھا۔ اس کا جواب دے کر کئی بار انعام جیتا۔ ان ناولوں میں میرے خط بھی کئی بار چھپے۔
اشتیاق احمد کے ناولوں کے بعد بچوں کے رسالوں میں خط بھیجنے لگا۔ اس کے بعد چھوٹی موٹی کہانیاں۔ جنگ ڈائجسٹ میں کئی کہانیاں چھپیں۔ ایک دو میں خانیوال کا ذکر کیا۔ ایک دو میں سونیا نام کا کردار شامل کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ کہانی پڑھ کر خط لکھے گی۔ لیکن شاید جنگ ڈائجسٹ کا کراچی ایڈیشن پنجاب نہیں جاتا تھا۔ جاتا بھی ہوگا تو اس نے نہیں دیکھا ہوگا۔ ان کے گھر نوائے وقت آتا تھا۔
چھوٹے ماموں کے بڑے بیٹے ہمارے عارف بھائی کی شادی 1993 میں اسلام آباد میں ہوئی۔ امی تو ڈپریشن کی وجہ سے کراچی میں کسی شادی میں نہیں جاتی تھیں۔ شہر سے باہر جانے کا سوال نہیں تھا۔ مجھ پر مغرب کے بعد گھر میں رہنے کی پابندی دس بجے تک نرم ہوچکی تھی۔ لیکن اس وقت تک میں ایک دن بھی گھر سے باہر نہیں رہا تھا۔ میں نے امی سے کہا، مجھے عارف بھائی کی شادی میں جانے دیں۔ امی نے پہلے ہنس کر منع کیا اور ضد کرنے پر ڈانٹ دیا۔ میں نے چھوٹے ماموں سے مدد طلب کی۔ انھوں نے کسی نہ کسی طرح امی کو راضی کرلیا۔
میں نے پروگرام بنایا کہ اسلام آباد جاتے ہوئے راستے میں خانیوال اتر جاوں گا۔ اپنے پکے دوست شباہت حسین کو ساتھ چلنے کو کہا۔ وہ جہنم تک ساتھ جانے کو تیار رہتا تھا۔ آٹھ سال بعد میں خانیوال اسٹیشن پر اترا تو ایسا احساس ہوا جیسے کوئی ہجرت کے برسوں بعد وطن واپس آئے۔
ان ڈیڑھ دنوں میں نثار احمد، عبدالنعیم اور کرار حیدر سمیت کئی اسکول فیلوز سے ملا۔ راو فرحت سمیت کئی محلے داروں سے ملاقات کی۔ اپنے اسکولوں اور کتابوں کی دکانوں کے چکر لگائے۔ بابا نے اپنے دو تین دوستوں سے ملنے کو کہا تھا، ان کے پاس گیا۔ اتفاق سے ان کے بینک کے دوست ملک عطا الرحمان کی شادی ہماری کلاس ٹیچر مس شگفتہ قادری سے ہوگئی تھی۔ ان کے گھر بھی گیا۔
ایک گلی سے گزرتے ہوئے شناسا دروازے کی بیل بجائی تو ایک اجنبی لڑکا نکلا۔ میں نے سونیا کے ابو احمد صاحب کا نام لیا تو اس نے کہا، وہ اب یہاں نہیں رہتے اور مجھے نہیں پتا کہ کہاں چلے گئے ہیں۔
کرار اب ایک سنجیدہ سیاسی رہنما بن گیا ہے۔ تب شرارتی سا نوجوان ہوتا تھا۔ اسکول کی سب لڑکیوں کے نام پتے اور کئی کی حرکتیں اسے یاد تھیں۔ اس کے والد کی سوڈاواٹر کی فیکٹری تھی۔ جہاں سوپر نام کی سافٹ ڈرنک تیار ہوتی تھی۔ سنگلاں والہ چوک کے قریب ایک دکان بھی تھی۔ اس نے ہمیں وہاں کھانا کھلایا، ملک شیک پلایا اور میرے کان میں بتایا کہ سونیا اب کہاں رہتی ہے۔
اس شام ریلوے اسٹیشن جانے سے پہلے شباہت سامان پیک کررہا تھا تو میں ابھی کچھ دیر میں آیا کہہ کر نکلا۔ احمد صاحب کا گھر اسٹیشن سے زیادہ دور نہیں تھا۔ اس کی امی اور بہن مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ امی اور بہنوں کے بارے میں پوچھتی رہیں۔ نانی اماں کو یاد کیا۔ میں سونیا سے باتیں کرنا چاہتا تھا، لیکن نہیں کرسکا۔ وہ بڑی لگ رہی تھی۔ نہ میں اسے آنکھ بھر کے دیکھ سکا اور نہ کوئی سوال پوچھ پایا۔
کراچی واپس آنے کے بعد خانیوال کو یاد کرنے کا موقع نہیں ملا۔ شہر کے حالات پہلے ہی اچھے نہیں تھے۔ نوے کی دہائی ہولناک تھی۔ ایم کیو ایم کے دو دھڑوں کی لڑائی میں بے شمار لاشیں گریں۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ بھی زور پکڑ گئی۔ ڈاکٹروں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ ایک شیعہ انجمن کی بس پر فائرنگ ہوئی، جس کے بعد پورے شہر کی ماتمی انجمنیں محتاط ہوگئیں۔
شیعہ ہونا اور انچولی جیسے حساس علاقے میں رہنا کم نہیں تھا کہ میں نے جرنلزم جوائن کرلی۔ کہانیوں، ترجموں اور اسپورٹس مضامین کے بعد میری ایک کتاب بھی چھپ چکی تھی۔ ٹی وی پر ایک کوئز جیت لیا تھا۔ عام لوگ نہ سہی، بہت سے صحافی مجھ سے واقف ہوچکے تھے۔ جرنلزم میں نیٹ ورکنگ چلتی ہے۔ اسی طرح پہلی ملازمت ملی۔ پھر دوسری۔ پھر تیسری۔
میں اب پیچھے مڑ کے دیکھنا چاہتا ہوں تو لڑکپن اور جیونیوز کے آخری برسوں کے درمیان کا بہت سا وقت دھندلا نظر آتا ہے۔ پچیس سے چالیس تک کا وقت سخت محنت اور کرئیر بلڈنگ میں بیتا۔ زندگی رولر کوسٹر کی رفتار سے بھاگی۔ میں بڑا بیٹا تھا اور کمانے لگا تھا۔ امی نے کسی لڑکی کا ذکر کیا۔ وہاں بات نہ بنی۔ ایک جگہ منگنی ہوئی۔ وہ رشتہ ٹوٹ گیا۔ پھر بہت مختصر نوٹس پر شادی ہوگئی۔ بابا کی ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی حالات خراب تھے۔ شادی کے بعد خرچے بڑھ گئے۔ میں نے دو دو جابز کیں۔ راتوں کو جاگ جاگ کر ترجمے کیے۔ اس دوران یونیورسٹی میں بھی داخلہ لیا اور ماسٹرز کیا۔
جیونیوز میں ملازمت ملنے کے بعد کچھ سکون کا سانس ملا۔ جیو نے کئی سال دبئی اسٹیشن پر رکھا۔ وہاں براڈکاسٹنگ میں مہارت حاصل کی۔ بہت سے بڑے ایونٹس کور کیے۔ کراچی واپس آکر دس سال بعد لکھنا لکھانا شروع کیا۔ سو لفظوں کی کہانی کا آغاز کیا۔ کئی کتابیں چھاپیں۔ جنگ میں سلسلہ شروع ہوا۔ لٹریچر فیسٹولوں میں بطور مہمان مدعو کیا گیا۔ کئی بار ٹی وی اسکرین پر بھی آیا۔
معاشی خوشحالی میسر آئی تو بڑے مکان میں منتقل ہوا۔ دو گاڑیاں خرید لیں۔ بچوں کو اچھے اسکولوں کالجوں میں پڑھایا۔ حج اور زیارات کیں۔ یورپ اور مشرق وسطی کے کئی ملکوں کا دورہ کیا۔
اب مجھے خیال آیا کہ ہر سال ہم بیرون ملک سیر کو چلے جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کو پاکستان بھی دکھانا چاہیے۔ انھیں لاہور، ملتان اور اسلام آباد کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ دفتر سے سالانہ چھٹی لی اور جہاز کے بجائے ٹرین کا ٹکٹ لیا۔ یورپ کی ٹرین دیکھنے والوں کے لیے پاکستان کی ٹرین میں بیٹھنا دلچسپ تجربہ تھا۔
ہمارا پہلا پڑاو ملتان میں تھا جہاں میں نے شہر کے بہترین ہوٹل میں بکنگ کروائی تھی۔ بہاو الدین زکریا کے ہاں بعد میں حاضری دی، پہلے ڈاکٹر زری اشرف، رامش اور لائبہ کے گھر گئے اور دعوت اڑائی۔ بھائی حافظ صفوان ناشتہ لے کر آئے اور بھائی جمشید رضوانی نے ملتانی تحفوں سے لاد دیا۔
ایک صبح میں نے لمبی سی کار رینٹ پر لی اور خانیوال کا رخ کیا۔ بچوں کو اپنا شہر نہ دکھایا تو کیا دکھایا۔ انھیں ان کے پردادا کے امام بارگاہ کی زیارت کروائی۔ اپنے جگری یار نثار اور کلاس فیلو اسد مہدی ایڈووکیٹ کے گھر گئے۔ بچوں کو اپنی نانی اماں کا وہ گھر دکھایا جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ ساتھ ساتھ کمنٹری کرکے بیوی بچوں کی معلومات میں اضافہ کرتا رہا۔ واپسی سے پہلے خیال آیا کہ احمد صاحب کے ہاں بھی جانا چاہیے۔
اس گھر کے سامنے گاڑی روک کر میں نے دیکھا، نیم پلیٹ پر احمد صاحب کے بجائے ان کے بیٹے کا نام لکھا تھا۔ ڈور بیل کا بٹن دبایا تو بہت دور کہیں گھنٹی بجی۔ میں ذرا فاصلے پر گاڑی کے پاس کھڑا ہوگیا۔ قدموں کی چاپ سنائی دی اور ذرا سا دروازہ کھلا۔ سر پر دوپٹہ اوڑھے ایک مانوس چہرے والی خاتون نے جھانک کر دیکھا اور مجھ پر نظر پڑتے ہی دروازہ کھول دیا۔
ان آنکھوں میں ایسی چمک نظر آئی جس کو میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ ایک عجیب سی حیرت تھی۔ ایک عجیب سی خوشی تھی۔ وہ ایک طویل لمحہ تھا۔ ایک ایسا طویل لمحہ جس میں برسوں پہلے کا فلیش بیک تھا۔ ان آنکھوں کی چمک اور ماضی کی جھلک کے ساتھ میرے کانوں میں اپنی ہی آواز آئی، میں بڑا ہوکر بڑی سی کار میں آوں گا اور۔۔
اسی وقت کار کا دروازہ کھلا۔ اس نے میری بیوی کو اترتے ہوئے دیکھا۔ ستاروں سے بھری ہوئی آنکھیں یکایک بجھ گئیں۔ چہرے کی رونق رخصت ہوگئی۔ دوپٹہ پھسلا اور بالوں میں چاندی نمایاں ہوئی۔ میرا حلق سوکھ گیا۔ پیر زمین میں گڑ گئے۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں ریت سے بنا ہوا تھا۔