Sochne Walon Ke Liye Chand Sawal
سوچنے والوں کے لیے چند سوال

ہسٹری ڈیٹابیس آف دا گلوبل انوائرمنٹ (ہائیڈ) کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ دس ہزار سال قبل مسیح انسان کی کل آبادی بیس لاکھ تھی۔ رسول پاک کا ظہور چھٹی صدی عیسوی میں ہوا۔ تب تک دنیا کی کل آبادی بائیس کروڑ تھی۔ یعنی تقریباً اتنی، جتنی آج پاکستان کی آبادی ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کو ساڑھے دس ہزار سے تقسیم کریں تو جواب ملتا ہے کہ ہر سال بارہ نبی آئے۔
نبیوں کے درمیان سیکڑوں سال کا وقفہ بھی رہا۔ حضرت عیسیٰ اور رسول پاک کے درمیان ساڑھے پانچ سو سال شاید کوئی نبی نہیں آیا۔ ایک آدم سے بائیس کروڑ کی کل آبادی کے لیے سالانہ بارہ نئے نبی۔ اوسطاً ہر نبی کی عمر ساٹھ سال لگالیں تو ایک وقت میں کم و بیش سات سو بیس پیغمبر موجود رہے ہوں گے اور بائیس کروڑ سے لے کر آٹھ ارب آبادی (اینڈ کاؤنٹنگ) کے لیے کسی نبی کی ضرورت نہیں؟"
یہ خیال دوبارہ اس لیے آیا کہ ایک دوست نے علما کے ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا ہے۔ وہاں ختم نبوت کے معاملے پر بحث چل رہی تھی۔ میں طالب علم ہونے کی وجہ سے خاموش رہا۔ لیکن یہ سوال بار بار ذہن میں آتا رہا کہ خدا نے نبوت کا سلسلہ کیوں روک دیا۔
اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ دین مکمل ہوگیا اس لیے مزید انبیا کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ کمزور بات ہے۔ دین مکمل ہوگیا تھا تو احادیث اور فقہ مرتب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اجماع اور اجتہاد کی ضرورت کیوں باقی ہے؟ دنیا میں ترقی ہورہی ہے تو دین میں بھی ترقی کی ضرورت ہے جو ڈیڑھ ہزار سال پہلے منجمد ہوگیا اور بعد والوں کو زمانے کے ساتھ نئی نئی تشریحات کرنا پڑ رہی ہیں۔
اہل تشیع کا عقیدہ ذرا سا مختلف ہے لیکن مسائل وہی ہیں۔ ان کے ہاں امامت شروع ہوگئی جو گیارہ آئمہ تک چلی لیکن بارہویں امام پردہ غیب میں چلے گئے۔ اس کے بعد وہاں بھی اہلسنت والا معاملہ ہے کیونکہ امام سامنے آکر رہنمائی نہیں کررہے۔ اب دین مجتہدین کے ہاتھ میں ہے۔
اگر یہاں تک مذہبی دوستوں نے تحریر پڑھ لی تو وہ قرآن کی آیات، احادیث اور روایات کا طومار لے کر حملہ آور ہوجائیں گے۔ اتفاق سے ہمیں ان کا پہلے سے علم ہے۔ انھیں دوبارہ بیان کرنے کی حاجت نہیں۔
دعوت فکر اس بات کی ہے کہ انبیا کی ضرورت کیوں تھی؟
کیا صرف پیغام پہنچانے کے لیے؟ اس کے لیے آدم کافی تھے۔
پیغام میں تحریف کی وجہ سے؟ خدا اولین پیغام کو بھی محفوظ رکھ سکتا تھا۔
پیغام کی بار بار تلقین کے لیے؟ وہ ضرورت تو آج بھی ہے۔
میں گمراہ ہونے کی وجہ سے اس فکر کا قائل ہوں کہ انبیا اپنے دور کے ویسے ہی پیر تھے جیسے آج کے دور میں ہوتے ہیں۔ فرق یہ سمجھ لیں کہ آج کے ڈبا پیر کم علم اور جعلساز ہوتے ہیں۔
انبیا اپنے دور کے صاحبان علم، زبان داں اور ذہین لوگ تھے۔ وہ بھی جانتے تھے کہ کوئی خدا نہیں ہے یا ہے تو افلاک میں گم ہے۔ وہ مخلوقات سے رابطے نہیں کرتا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی قوم کی اصلاح خود کرنے کی ٹھانی۔ اس کے لیے انھوں نے "الہامی کلام" پیش کیا اور اکثر نے قوانین مرتب کیے۔ مغرب میں موسی اور رسول اللہ ﷺ کو عظیم قانون دانوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔
قوانین وقت کے ساتھ فرسودہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان پر نظرثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں ترامیم کرنی پڑتی ہیں۔ مذہبی قوانین کو اٹل سمجھنے کی وجہ سے ایسا نہیں کیا جاسکتا اس لیے یا تو وہ متروک ہوجاتے ہیں یا اجتہاد سے کام لینا پڑتا ہے۔
آج کے تمام مہذب معاشروں کو دیکھیں۔ ان ریاستوں نے آئین بنائے اور ان میں مسلسل ترامیم کرتی جارہی ہیں۔ قوانین تشکیل دیے اور ان میں مسلسل اصلاح کی جارہی ہے۔ کوئی اصرار نہیں کرتا کہ خدا نے ہماری الہامی کتاب میں چور کی جو سزا لکھی ہے، اسے برقرار رکھا جائے۔ اس لیے کہ ڈیڑھ دو ڈھائی ہزار سال پہلے کا خدا، اگر واقعی کوئی تھا، تو آج کے انسانی شعور کے لحاظ سے فکری طور پر بونا تھا۔
آخری بات یہ ہے کہ انبیا یا قدیم ازمنہ کے پیر، جو بھی سمجھ لیں، اپنے معاشرے کی اصلاح چاہتے تھے اور آج کی جدید ریاست بھی یہی چاہتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ انبیا نے خدا کا نام لینے کی وجہ سے قوانین میں ترمیم کا راستہ نہیں چھوڑا جبکہ جدید ریاست میں قوانین میں تبدیلیاں کرنا یا انھیں ازسرنو تشکیل دینا ممکن ہے۔

