Siasat, Kya Khayal Hai?
سیاست، کیا خیال ہے؟
سیاست میں کوئی مسیحا نہیں ہوتا۔ مسیحا دیومالائی کہانیوں میں ہوتے تھے۔ سیاست میں قیادت ہوتی ہے۔ قیادت کی خداداد صلاحیت نہ ہو تو سائنسی طریقے سے سیکھی جاسکتی ہے۔ منیجمنٹ اور لیڈرشپ کے کورس اسی لیے ہوتے ہیں۔
جمہوریت ہو یا آمریت، فوجی اسٹیبلشمنٹ ہو یا سویلین بیوروکریسی، کوئی کرپشن سے پاک نہیں ہوتا۔ اسے واچ ڈاگز کی مدد سے کم کیا جاسکتا ہے لیکن ختم نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کے کسی ملک میں صفر کرپشن نہیں۔
لینن کا مشہور قول یاد رکھنا چاہیے کہ ہوسکتا ہے آپ کو سیاست میں دلچسپی نہ ہو لیکن سیاست کو آپ میں بہت دلچسپی ہے۔
ہر شخص کو سیاست میں دلچسپی لینی چاہیے۔ خبریں سننا، ٹاک شوز دیکھنا، کسی لیڈر کو مسیحا ماننا، اپنی پسندیدہ پارٹی کے الیکشن جیتنے پر خوش ہونا اور سوشل میڈیا پر تبصرے کرنا کافی نہیں۔ ہر شخص کو کسی سیاسی جماعت کا کارکن بننا چاہیے اور جس سطح پر بھی ممکن ہو، پارٹی، سسٹم اور عہدے داروں کی اصلاح کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ پارٹی ٹھیک ہوگی تو سسٹم ٹھیک ہوگا۔ سسٹم ٹھیک ہوگا تو اچھے عہدے دار اوپر آئیں گے اور موروثی سیاست ختم ہوگی۔
بہرحال موروثی سیاست بری چیز نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی سیاست دانوں کے رشتے دار سیاست میں آتے ہیں۔ اصل بات عوام کی خدمت ہے۔ ہمیشہ ان افراد کو سپورٹ کرنا چاہیے جو سیاست کو وقت دیں۔ سیلی بریٹیز، کرئیر سوئچرز اور موقع پرستوں کو مسترد کردینا چاہیے۔ ہمیشہ اس شخص کا ساتھ دینا چاہیے جس تک آپ کی رسائی ہو۔
ہر عہدے دار کو اس کی مقررہ مدت تک کام کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ مقررہ مدت سے پہلے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن انتخاب کے موقع پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنا چاہیے۔
سیاست دانوں پر تنقید کرنے سے پہلے دیکھ لینا چاہیے کہ اصل مسئلہ سسٹم میں ہے، یا نااہلی ہے، یا اقربا پروری ہے، یا کرپشن ہے، یا بدانتظامی ہے۔
کوئی شخص سراپا نیکی یا مکمل برائی نہیں ہوتا۔ سیاست دان بھی عام انسان ہوتے ہیں۔ ان پر تنقید سے پہلے سوچنا چاہیے کہ ہم ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ خود ہماری زندگی میں فیصلے کے مواقع آئے تو کامیاب رہے یا ناکام ہوئے؟
کسی پارٹی کو پہلے حکومت ملی اور مسائل حل نہیں کرپائی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آئندہ بھی نہیں کرسکے گی۔ کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے لیکن حتمی رائے نہیں قائم کرنی چاہیے۔ پرانے لوگ چلے جاتے ہیں، نئے آجاتے ہیں۔ مستقبل کے مسائل مستقبل کے لوگ حل کریں گے۔
بہت سے نورانی پیغمبر آئے لیکن دنیا نہیں سدھری۔ اس لیے اپنے جیسے انسانوں سے اتنی ہی امید لگانی چاہیے جو کسی حد تک پوری ہوسکے۔ سارے مسائل تو امریکا اور چین جیسے امیر ملکوں تک میں حل نہیں ہوپاتے۔ غریب ملک کے شہری کو حقیقت پسندانہ توقعات رکھنی چاہیے۔
نئی نسل کا مستقبل بہتر بنانا ہے تو اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنی چاہیے۔ وہی بعد میں وکیل، جج، فوجی، بیوروکریٹ اور سیاست دان بنیں گے۔ ٹریفک کا اشارہ توڑنے، ٹیکس چوری کرنے یا بجلی کا کنڈا ڈالنے کے بعد آپ کو روشن مستقبل کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
کیا خیال ہے؟