Shehad Ki Makhiyan Bhi Urr Jayen Gi
شہد کی مکھیاں بھی اڑ جائیں گی

میں اکثر دیکھتا ہوں کہ جب ارکان پارلیمان یا بیوروکریٹس کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے تو دانشور حضرات اس پر تنقید کرتے ہیں اور سوشل میڈیا میں مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ میں نے بھی رو میں بہک کر کبھی ایسا کہہ دیا ہو۔ بہرحال یہ بچپنے والی باتیں ہیں۔
میں آپ کو ایک مثال فراہم کرتا ہوں۔ بڑے میر صاحب یعنی میر خلیل الرحمان کے زمانے میں جنگ گروپ میں کافی کم تنخواہیں ہوتی تھیں۔ شکیل صاحب نے دو چار کے بجائے درجنوں ڈائریکٹر مقرر کیے۔ ابتدا میں جیو کے پروڈیوسروں کی ہزاروں میں تنخواہیں ہوتی تھیں۔ پھر تیزی آئی۔ دس سال پہلے جیو میں، کم از کم نیوزروم میں کوئی ایسا پروڈیوسر نہیں تھا جس کی تنخواہ سوا لاکھ سے کم ہو۔ جیو نے ابتدائی بیس سال کیسی بے مثال ترقی کی، ہم سب نے دیکھا۔
اچھی تنخواہ انعام نہیں ہوتی۔ یہ کام کا معاوضہ بھی ہوتا ہے اور سرمایہ کاری بھی۔ کام کرنے والا خوشحال ہوگا تو کرپشن نہیں کرے گا۔ کمپنی کی بھلائی اور ترقی کے لیے محنت کرے گا۔ نئے آئیڈیاز لائے گا اور ان پر عمل کی کوشش کرے گا۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے ملک میں کافی کرپشن ہے۔ لیکن جب اچھی تنخواہیں ملیں گی، سیاسی اور عدالتی دباو نہیں ہوگا یا کم ہوگا اور نئے خیالات کی قدر کی جائے گی تو سرکاری ادارے خود بخود تیزی سے ترقی کرنے لگیں گے۔ اگر تنخواہ سے گھر چل رہا ہو اور سفید پوشی برقرار رہے تو سو میں سے نوے لوگ کرپشن نہیں کرنا چاہیں گے۔
ایک طرف کم تنخواہ والا سرکاری ادارہ ہو اور دوسری جانب زیادہ معاوضے والی نجی کمپنی، تو اچھا پروفیشنل ہمیشہ نجی کمپنی کا انتخاب کرے گا۔ پیچھے صرف تلچھٹ بچتی ہے۔
یہی معاملہ سیاست کا ہے۔ کسی سیاست دان کو معاشی مسائل نہیں ہوں گے تو وہ ایمان داری سے عوام کی خدمت کرسکے گا۔ یہ میں چوہدریوں اور مخدوموں کی بات نہیں کررہا۔ متوسط طبقے کے ایمان دار لوگ کیوں سیاست میں نہیں آتے۔ اس لیے کہ اگر وہ خدمت میں مصروف ہوجائیں گے تو ان کا گھر کیسے چلے گا۔ اگر یہ ضمانت ہو کہ الیکشن جیتیں یا ہاریں، آمدنی کا کوئی سلسلہ برقرار رہے گا، پارٹی ان کے معاشی مسائل حل کرے گی، پارلیمان میں جاکر انھیں عزت سے اچھی تنخواہ ملے گی، تو پھر ہر طبقے کے نمائندے پارلیمان میں پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔ اسمبلی اشرافیہ کا کلب نہیں رہے گی۔
یہ سوچنا غلط ہے کہ جب کرپشن ختم ہوگی اور ارکان پارلیمان اور بیوروکریٹ فرشتے بن جائیں گے تب اچھے معاوضوں کے حق دار ہوں گے۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ایمان دار لوگوں کی راہ سے روڑے ہٹائے جائیں اور اچھے پروفیشنلز کے سرکاری ادارے جوائن کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جونکوں اور طفیلیوں پر توجہ رہے گی تو شہد کی مکھیاں بھی اڑ جائیں گی۔