Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Notes To John

Notes To John

نوٹس ٹو جون

میرے ہائی اسکول کی چھٹی پہلے ہوجاتی ہے۔ بیوی کے اسکول کی چھٹی سوا گھنٹے بعد ہوتی ہے۔ کبھی میں گھر چلا جاتا ہوں اور چائے کا ایک کپ پی کر بیوی کو لینے نکلتا ہوں۔ کبھی گھر جانے کے بجائے گروسری کرلیتا ہوں۔ ہفتے میں ایک دن بک اسٹور کا رخ کرتا ہوں۔ اب پرنٹڈ بکس نہیں خریدتا۔ بک اسٹور میں نئی کتابیں دیکھ لیتا ہوں۔ کوئی پسند آجائے تو آن لائن پڑھتا ہوں۔

آج جون ڈیڈیون کی نئی کتاب نوٹس ٹو جون نظر آئی۔ یہ آپ بیتیوں کے شیلف میں لگی ہوئی تھی لیکن معلوم نہیں اسے وہاں ہونا چاہیے تھا یا نہیں۔ یہ ذرا مختلف قسم کی کتاب ہے جسے آپ بیتی کے بجائے ڈائری کہنا چاہیے۔

جون ڈیڈیون امریکا کی ممتاز صحافی، ناولسٹ اور پلے رائٹ تھیں۔ 1950ء کی دہائی میں جرنلزم شروع کی اور نام پیدا کیا۔ بڑے اخبارات اور جریدوں میں لکھتی رہیں۔ پھر فکشن نگاری شروع کی اور پانچ ناول لکھے۔ پانچ چھ اسکرین پلے تحریر کیے۔ نان فکشن کی کئی کتابیں شائع کیں۔ 2003 میں ان کے شوہر اور 2004 میں ان کی بیٹی کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان دنوں ان پر جو گزری، انھوں نے اس کا احوال دا ائیر آف میجیکل تھنکنگ کے نام سے لکھا۔ اس کتاب کو نیشنل بک ایوارڈ ملا اور پلٹزر انعام کے لیے بھی نامزد ہوئی۔

جون ڈیڈیون شوہر اور بیٹی کے انتقال کے سترہ اٹھارہ سال بعد تک زندہ رہیں۔ ان کا انتقال 87 سال کی عمر میں 2021 میں ہوا۔ آخری دس برسوں میں ان کی کوئی نئی کتاب نہیں چھپی۔

جون کے انتقال کے بعد ان کے لٹریری ایجنٹ اور ایڈیٹرز کو ان کے کاغذات میں ڈائری کے ڈیڑھ سو صفحات ملے۔ ان سے پتا چلا کہ انھوں نے نفسیاتی مسائل کی وجہ سے 1999 میں ایک ماہر نفسیات کے پاس جانا شروع کیا تھا۔ ان ملاقاتوں کا تذکرہ وہ ایسے لکھتی تھیں جیسے اپنے شوہر کو سنارہی ہوں حالانکہ بعض اوقات شوہر ان کے ساتھ ہوتا تھا۔

ان ملاقاتوں میں جون نے ماہر نفسیات کو اپنی والدہ سے کشیدہ تعلقات، بیٹی کے مسائل اور ذاتی معاملات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ پھر انھیں خود ہی لکھ ڈالا۔ اس ڈائری میں 46 انٹریز ہیں۔ ایڈیٹرز نے ان تحریروں کو مرتب کیا، ٹائپنگ کی غلطیاں درست کیں اور حاشیے تحریر کیے تاکہ جس شخص نے جون کی پرانی تحریریں نہیں پڑھیں یا تحریر میں آنے والے ناموں سے واقف نہیں، وہ بات سمجھ سکے۔

ہمارے لکھنے والے، ادیب، شاعر اور صحافی اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں لکھتے۔ کچھ نہیں لکھنا چاہتے۔ جون ڈیڈیون اور ان جیسے امریکی ادیبوں کی کتابیں مجھ جیسے فیس بکی رائٹرز کو ترغیب دیتی ہیں کہ اپنی زندگی کو بیان کرنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ ایسی آپ بیتیوں اور ڈائریوں میں کچھ لوگوں کے لیے سبق ہوتا ہے۔ کچھ کو ادبی دلچسپی کا سامان ملتا ہے۔ کچھ لوگوں کو مشکل زندگی گزارنے کا حوصلہ مل جاتا ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali