Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Musarrat Sahib

Musarrat Sahib

مسرت صاحب

اس گلی میں ایک دلچسپ اور نہایت ملنسار شخصیت مسرت صاحب تھے۔ دبلے پتلے، سر بالوں سے محروم، رنگ سانولا لیکن چہرے پر دائمی مسکراہٹ۔ سفید کرتا پاجامہ پہنتے تھے۔ پتنگ بازی کے ویسے شوقین، جیسے ہم بچے کرکٹ کے دیوانے تھے۔ لیکن انھیں شاذ ہی انچولی میں پتنگ اڑاتے دیکھا۔ وہ دوستوں کے ساتھ پتنگیں اور ڈوریں چرخیاں لے کر سوپر ہائی وے پر جاتے تھے اور وہاں پتنگ بازی کے مقابلوں میں حصہ لیتے تھے۔ ایسے لوگوں کی انگلیوں پر ہمیشہ سفید پٹیاں یا سنی پلاسٹ لگا ہوتا ہے کیونکہ تیز ڈور سے پوریں کٹ جاتی ہیں۔

مسرت صاحب کے چار بیٹے ہیں۔ میں ایک زمانے تک تین سے واقف تھا کیونکہ وہی گلی محلے میں نظر آتے تھے۔ اشرف بھائی کو شاید ہی کسی نے اشرف کہا ہو، وہ سب کے اچھے بھائی ہیں۔ شام کو کلف لگے کپڑے پہن کر، جوتوں کو پالش کرکے، چھوٹی سی داڑھی چمکا کر نکلتے اور گلی کے نکڑ پر کھڑے ہوجاتے۔ اصل میں وہی قطب تھے۔ ان کی وجہ سے بہت سے دوست اس گلی میں آتے جاتے۔ میں نے انھیں ان کے لڑکپن میں دیکھا جب ان کا بہت ٹیکا تھا۔ لیکن بہت بھرم کے باوجود کبھی انھیں زبانی کلامی لڑتے بھی نہیں دیکھا۔

ان سے چھوٹے گڈو بھائی تھے جنھیں ان کے دوست چلی کہنے لگے تھے۔ اس چلی کا شیخ چلی سے کوئی تعلق نہ سمجھیں کیونکہ وہ بے حد سنجیدہ اور بردبار آدمی ہیں۔ ہماری آپ کی داڑھی سیاہ نکلی اور پھر سفید بال آئے۔ ان کی داڑھی میں اول دن سے سفید بال تھے۔ سر کے بال بھی خشخشی۔ وہ السید گروپ کے رکن تھے۔ یہ امروہے کے ان بالوں کا ٹولا ہے جو بچپن سے جوانی اور اب بڑھاپے تک ساتھ ہے۔ اس میں نہ کوئی گھس سکتا ہے، نہ نکل سکتا ہے۔ میں ان کا ذکر کسی اور روز کروں گا۔

مسرت صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام طلعت ہے۔ وہ ممکن ہے کہ میرا ہم عمر ہو۔ لیکن بچپن ہی سے بڑے ڈیل ڈول کا تھا۔ اس کا الگ دوستوں کا گروپ تھا۔ یعنی تینوں بھائیوں کے دوستوں کے حلقے الگ تھے۔

پھر ایک دن اچھی بھائی نے یہ بتاکر حیران کردیا کہ ان کے ایک بڑے بھائی بھی ہیں۔ مشرف بھائی تب کمپیوٹر کمپنی نیکسٹ میں کام کرتے تھے۔ صبح دفتر جانا، شام کو گھر۔ ان کی غیر نصابی سرگرمیاں نہیں تھیں۔ پھر ان کی شادی میری ایک کزن سے ہوگئی۔ یوں وہ ہمارے رشتے دار ہوگئے۔

انچولی میں ان دنوں ٹینس اور ٹیپ بال کے بہت کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔ وہیں گھر کے پاس سادات کرکٹ گراونڈ تھا جسے کیرم بورڈ بھی کہا جاتا تھا۔ چوکور ہونے کی وجہ سے اس کے دو طرف چوکے چھکے نہیں لگائے جاسکتے تھے۔ وہاں ٹورنامنٹس میں شہر بھر کی ٹیمیں آتیں۔ دو تین ٹیمیں مقامی ہوتیں جن میں ایک کا نام سادات تھا اور دوسری کا السید۔ سادات میں اچھی بھائی کھیلتے اور اسپن یا فنگر بولنگ کرواتے۔ گڈو بھائی، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، السید میں تھے۔

اس گلی میں دو اور کرکٹر بھائی سہیل اور پھول بھی رہتے تھے۔ سہیل بھائی نسبتا بھاری اور کسرتی جسم کے تھے۔ فاسٹ بولر رن آپ کے بعد گیند پھینکنے سے پہلے اچھلتے ہیں کیونکہ اس سے ان کی گیند تیز نکلتی ہے۔ لیکن سہیل بھائی رن آپ میں اچھلے بغیر گیند پھینک دیتے۔ وہ بھی گورے چٹے اور خوبصورت تھے لیکن پھول بھائی کی بات ہی اور تھی۔ فلمی ہیرو لگتے تھے اور انھیں بھی اس کا احساس تھا۔ شاید وہ آج بھی اسی گلی میں رہتے ہیں۔ سہیل اور پھول بھائی کی بہن راجو باجی مجھے یاد ہیں جن کا محلے کے گھروں میں آنا جانا تھا۔ بدقسمتی سے کرنٹ لگنے سے ان کا انتقال ہوگیا تھا۔

انھیں کے گھر میں آصف جعفری رہتا تھا جس سے بعد میں میری گہری دوستی ہوئی جو آج بھی برقرار ہے۔ وہ بہادر علی جعفری عرف پیارے بھائی شہید کا بیٹا ہے جو 1984 میں لیاقت آباد امام بارگاہ پر حملے میں شہید ہوگئے تھے۔ آصف نے کچھ عرصہ اسٹیٹ لائف انشورنس میں کام کیا۔ بعد میں بینک میں ملازمت کرلی۔ اس کے بھائی کینیڈا میں رہتے ہیں۔

جب ہم 1985ء میں انچولی آئے تو اس وقت وہاں متعدد پلاٹ خالی پڑے تھے۔ رفتہ رفتہ مکان بنتے چلے گئے۔ مجھے ڈاکٹر جعفر کے کلینک والی گلی کا ایک پلاٹ یاد ہے جس پر رات کو بیڈمنٹن کھیلا جاتا تھا۔ ہمارے ماموں کے مکان کے برابر میں بھی خالی پلاٹ تھا۔ ایسا ہی ایک پلاٹ اس گلی میں بھی تھا، جس کا میں ذکر کررہا ہوں۔ وہاں بعد میں دو منزلہ مکان بن گیا اور برسوں سے لوگ رہ رہے ہیں۔ لیکن سب لوگ آج بھی اسے خالی پلاٹ ہی کہتے ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari