Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Midlife Crisis

Midlife Crisis

مڈ لائف کرائسس

وائس آف امریکا کا قاعدہ تھا کہ جب کسی شخص کی ملازمت ختم ہوتی تو سب اس سے تعلق توڑ لیتے۔ نام نہاد قریبی دوست بھی فون نہیں اٹھاتے تھے۔ مجھے نوکری جانے سے زیادہ اس بے رخی پر افسوس ہوا تھا اور ایسا ایک بار نہیں، دو بار ہوا۔

وائس آف امریکا بند ہوا تو ایک دو دوستوں کے سوا میں نے بھی کسی کو فون نہیں کیا۔ جن سے بات ہوئی، انھیں پیشکش کی کہ دھکے کھا کر سنبھلنے کی وجہ سے آپ کو کچھ مشورے دے سکتا ہوں۔ لیکن انھوں نے دلچسپی نہیں لی۔ مفت کے مشورے کسی کو درکار نہیں تھے۔

میں نہیں جانتا تھا کہ وائس آف امریکا سے فارغ ہونے والے صحافی کیا کررہے ہیں۔ آج ایک سابق کولیگ سے بات ہوئی۔ میں نے نہیں پوچھا، انھوں نے ہی بتایا کہ کئی افراد نے یوٹیوب چینل بنالیے ہیں۔ کوئی اسٹیٹ ایجنٹ بننے کی کوشش میں ہے۔ کوئی ڈورڈیش کررہا ہے جسے یہاں کا فوڈپانڈا سمجھیں۔ اوبر بھی چلارہے ہوں گے۔ کچھ لوگ ریٹائرمنٹ فنڈ سے قبل از وقت پیسہ نکال کر کاروبار کرنے کی فکر میں ہیں۔

مجھے اپنا وقت یاد آیا جب ملازمت ختم ہونے کے بعد ایک نیوز ویب سائٹ بنائی تھی۔ خیال تھا کہ ویب سائٹ کامیاب ہوگئی تو گھر چل جائے گا اور جرنلزم سے تعلق بھی جڑا رہے گا۔ شکر ہے کہ وہ ویب سائٹ جلد ناکام ہوگئی اور مجھ پر سے صحافت کا بھوت اتر گیا۔

میں نے وائس آف امریکا کے بعد ایک نہیں، دو نہیں، تین شعبوں میں جان ماری کہ کسی ایک میں تو بات بنے گی۔ اوبر چلاتے ہوئے کمیونی کیشنز، ایجوکیشن اور پروجیکٹ منیجمنٹ میں ڈگریاں اور سرٹیفکیشنز کیے، کتابیں پڑھیں، نیٹ ورکنگ کی، سات سو سے زیادہ جگہ اپلائی کیا اور ابتدا میں کم تنخواہ کی ملازمتیں کیں۔ سنبھلتے سنبھلتے تین سال لگ گئے۔

اب واشنگٹن کے جو صحافی یوٹیوب چینل کھول بیٹھے ہیں، انھیں حقائق کی دنیا میں آنے میں چند ماہ لگیں گے۔ بعض چینل کیوں کامیاب ہوجاتے ہیں اور بیشتر کیوں ناکام رہتے ہیں، یہ میں بھی پچیس سال کی جرنلزم سے نہیں سمجھ سکا تھا۔ اسٹریٹیجک کمیونی کیشنز کے ماسٹرز میں کیس اسٹڈیز کا تجزیہ کیا تو سمجھ آیا۔

مڈ لائف کرائسس بہت سخت ہوتا ہے۔ چالیس کے بعد نیا کرئیر شروع کرنا جان نکال لیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وائس آف امریکا سے نکلنے کے بعد ایک جناب ابوالحسن نغمی اور دوسرے فیض رحمان تھے جنھوں نے ایک الگ کرئیر شروع کیا اور کامیاب رہے اور کوئی مثال ہے تو میرے علم میں نہیں۔

صحافیوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخصوص دائرے سے نکلنے کو تیار نہیں ہوتے۔ خود کو بڑا انٹلکچوئل سمجھتے ہیں۔ ایک قدم نیچے اترنا پسند نہیں کرتے۔ بعد میں کنویں میں گرنا پڑجاتا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan