Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Klasra Sahab Ka Saaib Mashwara

Klasra Sahab Ka Saaib Mashwara

کلاسرا صاحب کا صائب مشورہ

جناب روف کلاسرا نے آج ایک نوجوان کے بارے میں لکھا ہے جو ایم اے کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ انھوں نے اسے مشورہ دیا کہ ایم اے تک ٹھیک ہے، اس کے بعد اے آئی کے کورسز کرنا بہتر ہوگا۔ انھوں نے امریکا کی مثال دی کہ یہاں گریجویشن تک تعلیم کو کافی سمجھا جاتا ہے اور اس سے آگے کم لوگ جاتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ امریکا میں عام ملازمت کے لیے یونیورسٹی ڈگری بھی نہیں، ہائی اسکول ڈپلوما کافی ہوتا ہے۔ یہ ہائی اسکول کی ذمے داری ہے کہ نوجوانوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنائے۔ یعنی ایسا شہری جو قانون پر عمل کرے، کسی پیشے، ملازمت یا کاروبار سے روٹی کمائے اور ٹیکس دے۔

میں پہلے بتاچکا ہوں کہ جب میں نے اپنے طلبہ پر زور دیا کہ وہ خوب پڑھیں تاکہ اچھی یونیورسٹیوں میں داخلے لے سکیں، تو میری ایک سینئر نے سمجھایا کہ ایسی باتیں مت کیا کریں۔ کچھ بچے کبھی یونیورسٹی نہیں جاسکتے۔ خواہ مخواہ انھیں اسٹوڈنٹ لون میں مت پھنسائیں۔ بعض ذہین بچے بھی یونیورسٹی جانے کے بجائے ہنر سیکھیں گے۔ ہمارا کام ہے کہ انھیں یونیورسٹیوں کے بجائے ان اکیڈمیوں کی راہ دکھائیں جو ہنر سکھاتی ہیں۔

واقعی ہر سال سینئرز، یعنی بارہویں کے طلبہ کو آگے کی راہ دکھانے کے لیے یونیورسٹیوں کے ساتھ اکیڈمیوں کے لوگ بھی ہائی اسکول آتے ہیں اور عمدہ پیشکشیں کرتے ہیں۔

امریکا میں بہت زیادہ لوگ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن امریکا کی آبادی کا اندازہ لگائیں تو کلاسرا صاحب کی بات درست ہے۔ اعلی تعلیم کی طرف خاص لوگ ہی جاتے ہیں۔ پی ایچ ڈی خالص ریسرچ کا کام ہے۔ اگر کسی کو تحقیق سے دلچسپی نہیں یا اس کا وقت نہیں نکال سکتا تو پی ایچ ڈی کرنا کار زیاں ہے۔ یہاں پسماندہ ملکوں کی طرح نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانے کا کسی کو شوق نہیں۔ میں سچ مچ ایسے متعدد افراد کو جانتا ہوں جنھوں نے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانے کی خواہش میں ایم بی بی ایس یا پی ایچ ڈی کرلیا۔ لیکن اس شعبے کو یا ان کی ذات کو ایک فیصد بھی فائدہ نہیں پہنچا۔

امریکا میں تعلیم کو پڑھائی نہیں، لرننگ یعنی سیکھنا کہتے ہیں۔ کسی کو سیکھنے میں مزہ آنے لگے تو پھر یہ دو چار برس کی بات نہیں رہتی۔ انسان زندگی بھر اس مزے کی خاطر لرننگ میں پڑجاتا ہے۔

یہاں جملہ معترضہ کے طور پر سن لیں کہ ممتاز شاعر اور کالم نگار حماد غزنوی میرے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ گزشتہ بار امریکا آئے اور محفل جمی تو انھوں نے میری طرف اشارہ کرکے کہا، یہ شخص علم کی شہوت میں مبتلا ہے۔ سب خوب ہنسے۔ میں کم علم آدمی ہوں لیکن ان کا جملہ میری زندگی کا حاصل ہے۔ اس میں یہ لطیف طنز بھی برآمد کیا جاسکتا ہے کہ میں علم کی ماں بہن ایک کردیتا ہوں۔

اس میں کوئی انکسار نہیں کہ میں تقریباََ جاہل رہ گیا۔ بہت کچھ پڑھ لکھ سکتا تھا لیکن وقت ضائع کرنے میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہوں۔ کتابیں ہزاروں جمع کرلیں اور مطالعہ کچھ نہ کرسکا۔ ڈاکٹر آصف فرخی مرحوم جب یاد آتے ہیں، دل اداس ہوجاتا ہے۔ ان کے بارے میں ایک بار میں نے لکھا کہ وہ بہت زیادہ پڑھنے والے آدمی ہیں۔ میں بہت زیادہ نہ پڑھنے والا آدمی ہوں۔

بندہ پڑھنے سیکھنے والا ہو تو کسی ڈگری کے بغیر غازی صلاح الدین بن سکتا ہے۔ جاہل رہنے کا شوق ہو تو شہباز گل کی طرح ڈاکٹریٹ بھی کسی کام نہیں آتی۔

کلاسرا صاحب کا مشورہ صائب ہے، اے آئی سیکھیں اور بچوں کو سکھائیں۔ مستقبل میں جاہل وہ نہیں ہوگا جس کے پاس تعلیم نہیں ہوگی۔ جاہل وہ ہوگا جو جدید ٹیکنالوجی سے بے بہرہ ہوگا۔ امریکا کی یونیورسٹیاں اب اپنے اشتہاروں میں کہتی ہیں کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ طلبہ کو آج جو سکھایا جاتا ہے، ان کے عملی زندگی میں پہنچنے تک نئی ٹیکنالوجی آجاتی ہے۔ ہم آپ کو اس قابل بنائیں گے کہ مستقبل جو بھی ہو، آپ اس کے لیے تیار ہوں۔

کیا ہمارے طلبہ تیار ہیں؟

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam