Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Khoon Ka Matam

Khoon Ka Matam

خون کا ماتم

شیعہ خاندانوں کے ہر بچے کی طرح میں نے بھی خون کا ماتم ہوش سنبھالتے ہی دیکھا۔ ہم خانیوال میں رہتے تھے۔ محرم کے جلوس نکلتے تو ان دنوں سنگلاں والا چوک پر یہ ماتم کیا جاتا۔ بلکہ میں بہت عرصے تک یہی سمجھتا رہا کہ سنگلاں والا چوک کا نام ہی زنجیر کے ماتم کی وجہ سے ہے۔ تب وہاں قمہ کا ماتم نہیں ہوتا تھا۔ ایک واقعہ میں نے سنا کہ کسی شخص کو قمہ کا ماتم نہیں آتا تھا اور اس نے سیدھی چھری مار لی تھی۔ اب یاد نہیں کہ اس کا کیا حال ہوا۔ یہ یاد ہے کہ میری عمر کے بچے زنجیر کے بجائے بلیڈ کا ماتم کرتے تھے۔ یعنی بلیڈ کو دو انگلیوں میں پھنسا کر ہاتھ کا ماتم کرتے جس سے سینے پر زخم آجاتا۔

میں نے کراچی آنے کے بعد انچولی میں خون کا ماتم دیکھا۔ اب شب عاشور پر قمہ کا ماتم بھی ہوتا ہے۔ لیکن انچولی روڈ پر زنجیر کا ماتم کئی عشروں سے ہورہا ہے۔ سیکڑوں افراد کا حلقہ ہوتا ہے۔ ایک الگ دستہ ان کا ہوتا تھا جو نوحے کے ساتھ خون کا ماتم کرتے تھے۔ احمد نوید کا نوحہ "کربلا یوں بسائی جاتی ہے" پڑھا جاتا اور ساتھ میں زنجیروں کی جھنکار ہوتی۔ سننے والوں پر عجیب ہیبت طاری ہوجاتی۔

لوگ زنجیروں سے یا تلوار سے خود کو زخمی کرنے پر کیسے تیار ہوجاتے ہیں؟

عبدالحلیم شرر نے اپنی کتاب گزشتہ لکھنئو میں لکھا ہے کہ یونانیوں نے اپنی تقریروں کو موثر بنانے کے لیے پتا لگایا تھا کہ کون سے الفاظ، کون سی حرکات، کیسے لہجے اور کن آوازوں سے انسانوں کے دل میں خوشی یا غم یا رحم یا قہر و غضب کا جوش پیدا کیا جاسکتا ہے۔ شرر نے اس کے بعد لکھا کہ یونانیوں کے بعد یہ کمال غم حسین بیان کرنے والوں نے حاصل کیا اور اس فن کو اتنی ترقی دے دی کہ یورپ والے بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکے ہوں گے۔

میں نے ساری زندگی جرنلزم کی ہے اور کمیونی کیشنز اسٹریٹیجیز میں ماسٹرز کیا ہے۔ اس تعلیم اور تجربے کی وجہ سے میں شرر کی بات سے متفق ہوں، اگرچہ اس میں سارا ہنر محض ذاکروں کا نہیں بلکہ سانحہ کربلا کی اثر انگیزی کا بھی ہے۔

کوئی بھی صاحب دل امام حسین کے مصائب سن کر غم زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان مجلسوں اور جلوسوں میں ہر شیعہ گریہ اور ماتم کرتا ہے۔ لیکن عزاداری کی رسوم اس وقت ایک مختلف انداز اختیار کرلیتی ہیں جب اہلبیت کے مصائب سن کر جوشیلے افراد خون کا ماتم شروع کردیتے ہیں۔ آج یہ خون کا ماتم ہی دنیا بھر میں شیعوں کی پہچان بن گیا ہے۔ آپ یوٹیوب پر شیعہ، محرم، امام حسین یا ماتم لکھیں گے تو سامنے ایسی ویڈیوز آئیں گی جن میں خون کا ماتم کیا جارہا ہوگا۔

مجھے علامہ ضمیر اختر نقوی کی ایک مجلس یاد آرہی ہے جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ خون کے ماتم کا آغاز مختار ثقفی کے دور میں ہوا۔ میرا گمان ہے کہ خون کے ماتم کا آغاز توابین نے کیا ہوگا۔ یہ کوفہ کے وہ لوگ تھے جنھوں نے امام حسین کو خط لکھ کر بلایا لیکن جب ان کے قافلے کو گھیرا گیا تو نصرت کو نہیں پہنچے۔ انھیں بعد میں اپنے گناہ کا احساس ہوا اور توبہ کی۔ اس لیے توابین کہلائے۔ انھوں نے لشکر جمع کرکے شام کی فوج سے جنگ کی لیکن شکست کھا کر قتل ہوئے۔

ڈاکٹر علی شریعتی کا خیال تھا کہ آرمینیا کے مسیحی حضرت عیسی کی یاد میں خون کا ماتم کرتے تھے اور یہ رسم وہاں سے آئی ہے۔ کچھ مورخین سمجھتے ہیں کہ قزلباش ترکوں اور کردوں میں اس کا رواج تھا۔ وہ مسلمان ہوئے تو یہ رسم ادھر جاری رکھی۔ ایران میں قمہ زنی کا باقاعدہ سلسلہ صفوی دور میں شروع ہوا۔ صفوی اور قاچاری ادوار میں ایران آنے والے یورپی سیاحوں نے اپنی کتابوں میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ گویا یہ رسم تین چار سو سال سے زیادہ پرانی نہیں۔

توابین یا امیر مختار یا قدیم ایران، کہیں بھی زنجیر زنی کا سراغ نہیں ملتا۔ جہاں بھی خون کا ماتم ہوا، اس کا مطلب تطبیر تھا، یعنی قمہ زنی۔ یعنی سر پر چھری یا تلوار مار کے خون نکالنا۔ جیسی زنجیر زنی ہم پاکستان ہندوستان میں دیکھتے ہیں، یہ یہاں کی ایجاد ہے۔ ایران میں اب زنجیر کا ماتم تو ہوتا ہے لیکن اس میں پھل نہیں ہوتے۔ اس میں قمیص بھی نہیں اتاری جاتی۔ یعنی وہ پاکستان ہندوستان سے الگ قسم کا ماتم ہے۔

زنجیر سے خون کا ماتم شروع ہندوستان میں ہوا لیکن اب بہت سے ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ کربلا اور لبنان کے علاوہ دوسرے ملکوں کے شیعہ بھی محرم میں ایسا ماتم کرتے ہیں۔

میں نے خون کا سب سے خوفناک ماتم لبنانیوں کو کرتے دیکھا ہے۔ میں 2009ء میں دمشق گیا تھا۔ چہلم کے دن ایک بازار کی ویڈیو بنارہا تھا کہ لبنانیوں کا ماتمی جلوس اس طرف سے آتا دکھائی دیا۔ ان کے ہاتھ میں تلواریں تھی جو وہ اپنے سر پر مار رہے تھے۔ ان میں سے کوئی نہیں گرا۔ لیکن میں ویڈیو بناتے ہوئے چکرا کے گر گیا تھا۔

کیا امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ میں خون کا ماتم کیا جاتا ہے؟ جی ہاں، لیکن یہ کام چھپ کر کیا جاتا ہے کیونکہ ان ملکوں کی حکومتیں اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ یہ حکومتیں مذہب کے نام پر بہت رعایتیں دیتی ہیں لیکن خود کو نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔

اب ایک بار پھر میں اپنی تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ امام حسین جب قتل کیے گئے تو ان کی اولاد اور چاہنے والوں نے طے کیا کہ دنیا کو یہ ظلم بھولنے نہیں دیں گے۔ بنو امیہ اور ان کے بعد بنو عباس یعنی دشمنوں کی حکومت تھی۔ آج کی طرح اپنی بات پہنچانے کے تیز وسائل نہیں تھے۔ چنانچہ حسینیوں نے اس دور کے مطابق کمیونی کیشن اسٹریٹیجی اختیار کی۔ یعنی مجلس کے نام پر لوگوں کو جمع کیا۔ جلوس نکالے۔ گریہ اور ماتم سے لوگوں کو متوجہ کیا۔

متوجہ کرنے والے کاموں میں سب سے زیادہ موثر خون کا ماتم رہا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ کسی شخص کے خون نکلتا ہے تو سب اس کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیا واقعہ پیش آیا؟ خون کے ماتم کے بعد جب یہ سوال کیے گئے ہوں گے تو جواب دینے والوں نے سانحہ کربلا سے آگاہ کیا ہوگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تشہیر ہوتی گئی۔ ظلم اور ظالموں سے نفرت پیدا ہوئی اور امام حسین کے چاہنے والے بڑھتے گئے۔

لیکن جیسے زمانہ بدلتا ہے، کمیونی کیشن اسٹریٹیجیز بھی بدلنا پڑتی ہیں۔ ایک دور تھا کہ شہر کے چوک پر کھڑے ہوکر خبر سنائی جاتی تھی۔ پھر مسجد کا لاوڈ اسپیکر آیا۔ اخبار کا دور آیا۔ اب ریڈیو ٹی وی سے بھی زیادہ تیزی سے سوشل میڈیا خبر فراہم کرتا ہے۔

دنیا بدل چکی ہے۔ مغربی ملکوں میں خون کے ماتم کو وحشیانہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ بچوں سے خون کا ماتم کرانے کو بچوں کے حقوق کی پامالی قرار دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس طرح کے کاموں کے سخت خلاف ہیں۔ اب خون کا ماتم کرکے تبلیغ نہیں کی جاسکتی۔ اپنی بات اس طرح کسی کو نہیں سمجھائی جاسکتی۔

بعض لوگ خون کے ماتم کے خلاف بات نہیں سننا چاہتے۔ انھیں ایسا ماتم کرکے تسکین ملتی ہے۔ یا ان کا خیال ہے کہ ثواب ملتا ہے۔ لیکن ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ کسی امام نے خون کا ماتم کیا یا اس کی اجازت دی ہو یا اس کو سراہا ہو۔

اہل تشیع جن مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں، ان کی غالب اکثریت خون کے ماتم کے خلاف ہے۔ آپ کو خون کے ماتم کے حق میں چند ایک ہی مجتہدین کے نام ملیں گے۔ کوئی بڑا مرجع، کوئی آیت اللہ العظمی اس کے حق میں نہیں رہا۔ اگر کسی نے اجازت دی بھی تو ساتھ میں کہا کہ ایسے ماتم سے نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

کس آیت اللہ نے خون کے ماتم کے بارے میں کیا کہا؟

آیت اللہ خوئی نے کہا، اگر خون کے ماتم سے نقصان ہو یا مذہب کا مذاق اڑے تو اس کی اجازت نہیں ہے۔

آیت اللہ خمینی نے کہا، اگر خون کے ماتم سے نقصان نہ ہو تو حرج نہیں لیکن آج کے دور میں نہیں کرنا چاہیے۔

آیت اللہ سیستانی نے کہا، اپنے جسم اور مذہب کی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا، قمہ زنی حرام ہے۔ ایسا مت کریں۔ میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔

آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے کہا، مسلمانوں کو ایسے کاموں سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے شیعہ مذہب کی کمزوری ظاہر ہو اور جسم کو نقصان پہنچے۔

آیت اللہ عبداللہ جوادی آملی نے کہا، خون کے ماتم کی اجازت نہیں ہے، یہ اسلام اور عزاداری کی توہین ہے۔

آیت اللہ سعید الحکیم نے کہا، خون کے ماتم سے جسم اور روح کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ ایسی کوئی روایت نہیں کہ آئمہ نے خون کا ماتم کیا۔

یہ میں نے چند علما کے نام لیے ورنہ بیشتر مجتہدین خون کے ماتم کو غلط بلکہ غیر شرعی سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ماتم رکنے کا کوئی امکان نہیں۔ مجتہدین جو مناسب سمجھیں کہیں، حکومتیں جیسی چاہے پابندیاں لگائیں، طبی ماہرین جو مرضی مشورے دیں، شب عاشور پر اور یوم عاشور پر شہر شہر زنجیریں کھلتی رہیں گی، تلواریں نکلتی رہیں گی اور ماتمیوں کے سر اور پیٹھیں خون آلود ہوتی رہیں گی۔

نوٹ: میرے ایک ولاگ کا اسکرپٹ۔ ویڈیو میرے یوٹیوب چینل پر موجود ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali