Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Kaka Puthi

Kaka Puthi

کاکا پُتھی

ہم 1985ء میں کراچی آنے کے بعد انچولی میں رہے۔ میں گورنمنٹ ہائی اسکول خانیوال سے چھٹی پاس کرکے آیا تھا۔ اس کے بعد تہائی صدی انچولی میں کرائے کے مکانوں میں گزاری۔ چند مکانوں میں سال بھر بھی نہیں ٹک سکے لیکن ایک مکان میں بیس سال قیام رہا۔ میں بابا سے مذاق میں کہتا تھا کہ جتنا کرایہ ہم یہاں دے چکے ہیں، چند ہزار اضافی دے کر مکان اپنے نام کروالیں۔

سب سے پہلا پورشن ہم نے جس گلی میں لیا، سمجھیں میں اب بھی وہیں رہتا ہوں۔ یعنی دل وہیں پڑا رہ گیا۔ اس گلی کا ایک ایک مکان اور ایک ایک شخص میری آنکھوں میں پھرتا ہے۔

وہ بڑے ابا کا مکان تھا۔ ان کا نام اب مجھے یاد نہیں۔ بلکہ شاید کبھی معلوم ہی نہیں ہوا۔ ان دنوں وہ زندہ تھے اور بہت دلچسپ باتیں کرتے تھے۔ وہ پہلے آدمی تھے جنھیں میں نے تہجد کی نماز پڑھتے دیکھا۔ بڑے ابا کی بیگم، جنھیں سب کاکا پُتھی کہتے تھے، صورت شکل سے ہماری نانی اماں کی بہن لگتی تھیں۔ وہ ہمارے گھر آکر ان سے گھنٹوں باتیں کرتیں۔ تب نانی اماں ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ بابا نے آٹھویں میں پورے اسکول میں ٹاپ کرنے پر مجھے انعام میں کیمرا دلایا تھا۔ میں نے اس سے دونوں بزرگ خواتین کی ایک یادگار تصویر کھینچی جس پر انھوں نے خوب صلواتیں سنائیں۔ خدا جانے وہ تصویر کہاں گئی۔

شاید آپ سوچیں کہ کاکا پُتھی کیا نام ہوا؟ میں بھی ٹھیک سے نہیں جانتا۔ لہسن کی پُتھی البتہ سنی ہے۔ کاکا گوری چٹی تھیں، شاید اس لیے ان کا یہ نام پڑگیا ہو۔ امروہے میں ایسے ہی نام رکھ دیے جاتے تھے۔ جیسے ہماری نانی اماں کا نام کاکا کھلو پڑگیا تھا کیونکہ بہت کھلکھلاکر ہنستی تھیں۔

نانی اماں اور کاکا کی دوستی مختصر رہی کیونکہ ہماری اماں بعد میں چھوٹے ماموں کے گھر میں رہنے لگی تھیں۔ لیکن کاکا کی بیٹیوں ناہید باجی اور منسوبہ باجی سے ہماری امی کی دوستی ایسی ہوئی کہ آخری سانس تک برقرار رہی۔ انچولی میں آخری بیس سال ہم نے منسوبہ باجی ہی کے مکان میں کرائے دار کی حیثیت سے گزارے۔ میری شناختی کارڈ پر آج بھی اس گھر کا پتا درج ہے۔

بڑے ابا اور کاکا پُتھی کا جوڑا کمال کا تھا۔ شوہر اور بیٹے سنی، ماں اور بیٹیاں شیعہ۔ ان کی شادیاں بھی ویسے ہی کیں۔ البتہ ایک بیٹے وقار نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ ہم انھیں وقار ماموں کہتے تھے۔ ان کی آنکھوں میں سرخ جھلی آگئی تھی جس سے ان کی بینائی متاثر ہوئی تھی۔ معمولی سی سرجری سے ٹھیک ہوسکتے تھے لیکن وہ آپریشن کے نام سے ڈرتے تھے۔ خراب بینائی کے باوجود پینٹنگ کرتے تھے۔ یعنی بینر وغیرہ لکھتے تھے۔ کوئی دکان نہیں تھی، گھر پر ہی کام کرتے تھے۔

وقار ماموں کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی ذوالفقار، خدا انھیں سلامت رکھے، وہیں بہنوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ذوالفقار بھائی بے حد خوش مزاج اور ملنسار آدمی ہیں۔ انھوں نے کئی طرح کے کاروبار کیے۔ بسیں خرید کر چلائیں، ریسٹورنٹ کھولا اور جانے کیا کیا کیا۔ لیکن ہر ایک میں نقصان اٹھایا۔ کراچی میں اس قدر شریف آدمی پیسہ نہیں کماسکتا۔

وہ سب گھر والے کمال کے تھے لیکن مکان اگڑم بگڑم تھا۔ شاید اب بھی اسی حالت میں ہے۔ گراونڈ فلور 120 گز کے روایتی مکانوں جیسا تھا۔ لیکن پھر ایک کمرے کی دوچھتی تھی۔ اس میں بٹیا باجی اپنے پانچ بچوں کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے شوہر سردار صاحب ان دنوں دبئی میں تھے۔ پہلی منزل پر ہم رہتے تھے۔ گراونڈ فلور کا صحن اور دو چھتی نکالنے کے بعد ہمارے پورشن کا رقبہ ساٹھ گز رہ گیا ہوگا۔ اس میں چھوٹے چھوٹے سے تین کمرے بلکہ ایک چارپائی کا صحن بھی تھا۔ اس کے اوپر بھی ایک منزل تھی جس میں کسی زمانے میں وقار ماموں نے مرغیاں پالی تھیں۔ گھر کا پولٹری فارم تھا۔ ہمارے وہاں شفٹ ہونے تک مرغیاں بیماری سے چل بسی تھیں یا کھاپی لی گئی تھیں۔ تب وقار ماموں اسے اپنا اسٹوڈیو بناچکے تھے۔ دو چھتی کی چھت پر منڈیر نہیں تھی۔ وقار ماموں جب دوچھتی کی چھت پر رکھی لکڑی کی کمزور سیڑھی سے اوپر چڑھتے تو مجھے دھڑکا لگا رہتا کہ پھسلے تو ڈھائی منزل نیچے جاپڑیں گے۔ خیر گزری کہ وہ سانحہ کبھی نہیں ہوا۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan