Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Kaano Mein Khambe Bajna

Kaano Mein Khambe Bajna

کانوں میں کھمبے بجنا

بڑے ابا کے گھر کا خیال آتا ہے تو کانوں میں کھمبے بجنے لگتے ہیں۔ آپ لغت دیکھ کر کہیں گے کہ کانوں میں گھنٹیاں بجتی ہیں، ڈھول بجتے ہیں، سیٹیاں بجتی ہیں، یہ کھمبے کاہے کو بجنے لگے۔ اگر واقعی یہ سوال اٹھائیں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپ کراچی کے نہیں۔ اگر ہیں تو نوے کے بعد ادھر آئے ہیں۔

میں بتاچکا ہوں کہ ہم 1985ء میں کراچی منتقل ہوئے۔ تاریخ بھی انوکھی تھی۔ اکتیس مارچ کو ٹرین میں بیٹھے اور یکم اپریل کو کینٹ اسٹیشن پر اترے۔ کئی سال یہی گمان رہا کہ ہمیں اپریل فول بنایا گیا ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ وہ مہینہ کراچی کی تاریخ میں منحوس ترین ثابت ہوا۔ بشریٰ زیدی والا حادثہ 15 اپریل 1985ء کو ہوا تھا۔

کراچی میں دو سال پہلے شیعہ سنی فسادات ہوچکے تھے۔ تب لالوکھیت میں یوم عاشور پر مرکزی امام بارگاہ پر گولی چلی تھی اور شیعوں کے گھر جلائے گئے تھے۔ ہم نے خانیوال میں بیٹھ کر ان فسادات کی خبریں سنیں۔ نانی اماں ہولتی رہتی تھیں کیونکہ خالا امی اور چھوٹے ماموں کراچی میں رہتے تھے۔ مرکزی امام بارگاہ پر حملے میں جو تین افراد شہید ہوئے، ان میں سے ایک کے بیٹے سے بعد میں میری گہری دوستی ہوئی اور اب بھی تعلق برقرار ہے۔ جن لوگوں کے گھر جلائے گئے، ان میں ہمارے رشتے دار شامل تھے۔

لیکن بشریٰ زیدی والے حادثے کے بعد کراچی میں مہاجر پٹھان کشیدگی شروع ہوئی یا یوں کہہ لیں کہ بڑھ گئی اور تشدد میں تبدیل ہوئی۔ ان دنوں ایم کیو ایم نے طاقت نہیں پکڑی تھی۔ عام شہریوں کے پاس اسلحہ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ مہاجروں کے ذہن میں کچھ اس طرح کا خوف بیٹھا ہوا تھا کہ ہر پٹھان کے پاس بندوق ہوتی ہے اور وہ جتھے کی صورت میں حملے کرتے ہیں۔ یہ خیال 1986ء میں قصبہ اور علی گڑھ کالونی حملے کے بعد مضبوط ہوا جب مسلح جتھوں نے حملہ کرکے درجنوں افراد کو قتل کردیا تھا۔

مہاجر اکثریت کے علاقوں میں خوف کا راج تھا اور انچولی بھی ویسا ہی علاقہ تھا۔ اس کے اور سہراب گوٹھ کے بیچ صرف ایک سڑک ہے۔ اس طرف سے کوئی پتھر بھی پھینکے تو نشانے پر پہنچ سکتا ہے، کجا یہ کہ کسی کے پاس بندوق ہو۔ آئے دن شہر میں قتل ہونے لگے جو اس وقت غیر معمولی بات تھی۔ کسی کال کے بغیر شہر بند ہوجاتا۔ پھر فوج طلب کی جانے لگی اور متعدد بار کرفیو لگا۔ اب حیرت ہوتی ہے کہ بعد میں بڑے بڑے سانحات پر بھی کرفیو نہیں لگایا گیا لیکن تب چھوٹے سے فساد پر فوج آجاتی تھی۔

ہم اس زمانے میں بڑے ابا کے کرائے دار تھے۔ کارنر کا مکان تھا اور رات کو نوجوان اسی گھر کے باہر جمع ہوتے۔ کرفیو میں بھی یہ معمول رہتا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ سامنے اچھی بھائی کا گھر تھا اور اس کا دروازہ کھلا رہتا۔ جب فوج کی گاڑی آتی تو لڑکے بھاگ کر ان کے گھر میں گھس جاتے۔

میں سردیوں کی وہ راتیں فراموش نہیں کرسکتا جب کرفیو لگتا تھا اور بجلی چلی جاتی تھی۔ نصف شب گزر چکی ہوتی۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا ہوتا۔ میں اپنی کھڑکی میں کھڑا ہوجاتا۔ پہلی منزل پر سرد ہوا ہڈیوں میں گھستی۔ دور کہیں کسی گاڑی کی ہیڈلائٹس کی مدھم روشنی رقص کرتی۔ اس رقص کے ساتھ جیسے جلترنگ بجنے لگتا۔ کسی دوسرے بلاک میں ٹن ٹن شروع ہوتی۔ پھر کوئی قریب کی گلیوں میں پول پیٹنے لگتا۔ پھر ہماری گلی سے کوئی لڑکا نکلتا اور دیوانہ وار کھمبا بجاتا۔ کچھ دیر بعد یہ سلسلہ رک جاتا لیکن میرے کانوں میں ساری رات وہ موسیقی گونجتی رہتی۔

اب بھی بڑے ابا کے گھر کا خیال آتا ہے تو کانوں میں کھمبے بجنے لگتے ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali