Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Jang Ke Almiye

Jang Ke Almiye

جنگ کے المیے

امریکا میں ہائی اسکول کے ہر یونٹ کا کوئی نام ہوتا ہے۔ اس یونٹ میں اسی موضوع کا مواد پڑھایا جاتا ہے۔ نویں جماعت میں انگلش لٹریچر کے ایک یونٹ کا عنوان وار ٹورن ٹریجیڈیز ہے، یعنی جنگ کے المیے۔ میں اس میں طلبہ کو جارج ٹوکے کی آپ بیتی دے کالڈ اس اینیمی پڑھاتا ہوں۔ اس کا مطلب ہوا، انھوں نے ہمیں دشمن کہا۔

بیشتر پاکستانیوں کو اس کا پس منظر معلوم نہیں ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا ابتدا میں غیر جانب دار تھا۔ جاپانیوں نے اس کی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملہ کرکے ڈھائی ہزار امریکیوں کو مار ڈالا۔ امریکا کو جنگ میں کودنا پڑا۔ آج سب کو ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹم بم یاد ہیں۔ اس سے پہلے جاپانی کتنے ظالم تھے، انھوں نے محکوم اقوام پر کتنے ظلم کیے، اپنی طاقت کے زعم میں کہاں کہاں حملے کیے، وہ بھلایا جاچکا ہے۔

پرل ہاربر کے بعد امریکا نے دو جنگیں شروع کیں۔ ایک کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے۔ دوسری ملک کے اندر تھی۔ صدر روزویلٹ نے حکم جاری کیا اور بعد میں کانگریس نے قانون منظور کیا جس کے تحت ملک میں موجود تمام جاپانیوں کو، چاہے وہ امریکی شہری ہی کیوں نہ ہوں، کیمپوں میں منتقل کردیا گیا۔ ان کی کل تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔ وہ تین یا چار سال ان کیمپوں میں قید رہے۔ جنگ کے بعد ان سب کو رہائی ملی۔

جارج ٹوکے اس وقت بچے تھے۔ ان کے لیے وہ سب ایڈونچر تھا۔ انھیں سب یاد رہا۔ انھوں نے یونیورسٹی میں تھیٹر پڑھا، اداکار بنے اور اسٹارٹریک میں کام کرکے عالمی شہرت حاصل کی۔ اس شہرت کی وجہ سے ان کی گرافک میموئیر بھی مقبول ہوئی۔

جارج ٹوکے نے لکھا کہ جب کیمپ میں قید تھے، تب بھی ان کے والد کہا کرتے تھے کہ امریکا دنیا کا سب سے اچھا ملک ہے۔ یہاں حقیقی جمہوریت ہے۔ یہاں عوام احتجاج کرسکتے ہیں۔ یہ ملک غلطیوں سے سیکھتا ہے۔

وہی ہوا۔ امریکا کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ فوراََ نہیں لیکن کچھ عرصے بعد حکومت نے جاپانی امریکیوں سے معافی مانگی۔ ہر شخص کو بیس بیس ہزار ڈالر ہرجانہ ادا کیا۔ میڈل دیے۔ لاس اینجلس میں اس "غلطی" پر میوزیم بنایا۔

ایک وقت تھا کہ امریکا کے قدیم باشندوں کی نسل کشی کی گئی۔ ایک وقت تھا کہ امریکا میں غلامی رائج تھی۔ ایک وقت تھا کہ امریکا میں ترقی پسندوں کو ان امریکن کہہ کر ان پر پابندیاں لگائی گئیں۔ بعض غلطیوں کا مداوا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن غلطیوں سے سیکھا ضرور جاسکتا ہے۔ آج امریکی قوانین اور امریکی معاشرہ ماضی کی بہت سے خامیوں سے پاک ہے۔

مجھے سب سے اچھی بات یہ لگتی ہے کہ یہاں ڈھائی سو سال سے ہر چار سال بعد الیکشن ہورہے ہیں۔ بہت سے اچھے اور ذہین افراد صدر بنے۔ بعض برے بھی جیتے لیکن مدت پوری ہوکر رخصت ہوگئے۔ بعد میں آنے والوں نے پچھلوں کی غلطیوں کو درست کردیا۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

آج چین کے صدر نے امریکا کے بارے میں ایک بیان دیا ہے۔ آپ نے پڑھ لیا ہوگا۔ چین کو مستقبل کی سوپرپاور کہا جارہا ہے۔ سوپرپاور وہ ہوتی ہے جو دنیا کے انتظام میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ جیسے امریکا آج عالمی امور میں دخل دیتا ہے اور لوگوں کو پسند نہیں آتا۔ امریکا سے پہلے برطانیہ یہ کام کرتا تھا۔ اس سے پہلے سلطنت عثمانیہ، ماضی قدیم میں چنگیز خان اور سکندر اعظم جیسے فاتح رہے۔

شاید آپ جانتے ہوں کہ امریکا سے پہلے کس قسم کی سوپرپاورز ہوتی تھیں۔ لیکن کیا آپ کو اندازہ ہے کہ چین کس قسم کی سوپرپاور بنے گا؟ میں نے اوپر امریکا کی ایک مثال دی۔ ویسی ہی مثال چین میں اس وقت موجود ہے۔

چین نے سنکیانگ کے لاکھوں ویغور مسلمانوں کو کیمپوں میں رکھا ہوا ہے کیونکہ اس کے خیال میں مذہب ایک ذہنی بیماری ہے۔ وہ مسلمانوں کو اس بیماری سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ آپ ان کیمپوں کی معلومات گوگل کرسکتے ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق اٹھارہ لاکھ مسلمان 2017 سے ان کیمپوں میں قید ہیں۔

امریکا میں درجنوں سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ الیکشن میں دو بڑی جماعتیں نمایاں رہتی ہیں۔ چین میں ون پارٹی سسٹم ہے۔ امریکی صدر چار سال میں چلا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ دو بار یعنی آٹھ سال بعد اسے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ صدر شی 2013 سے عہدے پر برجمان ہیں۔ کوئی انھیں ہٹانے کی بات تو کرکے دیکھے۔ انسانی حقوق کا احترام اور احتجاج کا حق دونوں ملکوں میں کتنا ہے، آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔

چین کیوں عالمی معاملات میں سست ہے، کیوں قدم آگے نہیں بڑھاتا، کیونکہ وہ بہت سیانا ہے۔ بہت خسیس ہے۔ اسے معلوم ہے کہ سوپرپاور کو پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں اپنی فوجیں تعینات کرنا پڑتی ہیں۔ ورلڈ آرڈر برقرار رکھنے کے لیے بعض اوقات جنگ بھی کرنا پڑتی ہے۔

جب امریکا پیچھے ہٹ جائے گا اور چین ورلڈ آرڈر برقرار رکھنے کا ذمے دار ہوگا، تب آپ دیکھیں گے کہ دنیا کا کیا حشر ہوگا۔ امریکا غلطیاں کرتا ہے اور اس کے عوام احتجاج کرتے ہیں۔ غلط بندہ صدر منتخب کرتا ہے اور چار سال میں نکال دیتا ہے۔ غلط جنگ میں گھستا ہے اور کپڑے جھاڑ کے واپس چلا جاتا ہے۔ چین غلطی کرکے معافی نہیں مانگتا۔ غلط بندہ منتخب کرکے گھر نہیں بھیجتا اور جب وہ جنگوں میں گھسے گا تو واپس نہیں جائے گا۔

وہ سب لوگ جو آج چین کی طرف دیکھ رہے ہیں، ان سب کو نئی سوپرپاور ذہنی مریض قرار دے گی۔ انھیں کیمپوں میں سڑنے کے لیے چھوڑ دے گی۔ تب کسی جارج ٹوکے کا باپ اسے تسلی بھی نہیں دے سکے گا۔

Check Also

Imran Khan Ki Rehai Ki Nayi Tehreek

By Haseeb Ahmad