Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Jang Ka Idariya Khatam Hone Ka Sog

Jang Ka Idariya Khatam Hone Ka Sog

جنگ کا اداریہ ختم ہونے کا سوگ

میں جب امریکا آیا تو ان دنوں واشنگٹن پوسٹ ایک ٹیبلائیڈ اخبار بھی چھاپتا تھا۔ یعنی اس سائز کا، جو ہمارے ہاں مڈویک یا سنڈے میگزین کا ہوتا ہے۔ لیکن صرف ویک ڈیز میں، یعنی پیر تا جمعہ شائع کیا جاتا تھا۔ اس کا نام ایکسپریس تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کی اہم اور دلچسپ لوکل خبریں ایڈٹ اور مختصر کرکے رنگین تصاویر کے ساتھ چھاپی جاتی تھیں۔ خاص بات یہ تھی کہ بلاقیمت ملتا تھا۔ ٹارگٹ آڈیئنس وہ لوگ تھے جو میٹرو ٹرین سے سفر کرتے تھے۔ ہر اسٹیشن پر اس کی سیکڑوں کاپیاں رکھی جاتی تھیں۔

مجھے وہ اخبار پسند تھا۔ لیکن ایک دن میں اسٹیشن پہنچا تو اخبار نہیں تھا۔ میں سمجھا کہ سب کاپیاں لوگ لے گئے۔ لیکن معلوم ہوا کہ اسے بند کردیا گیا۔ دراصل ایک دن ایڈیٹر صاحب کی کار خراب ہوگئی۔ ٹیکسی بلانے کے بجائے وہ میٹرو میں بیٹھ گئے۔ دیکھا کہ ہر شخص موبائل فون میں گھسا ہوا ہے۔ اخبار کوئی نہیں پڑھ رہا۔ دفتر پہنچتے ہی انھوں نے پروجیکٹ بند کردیا۔

یہ کوویڈ سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے تب بھی یہ قصہ سنایا تھا۔ آج پھر یاد آیا کیونکہ جنگ کا اداریہ ختم ہونے کا سوگ منایا جارہا ہے۔ حالانکہ ختم وہی چیز ہوتی ہے جس کی مانگ باقی نہیں رہتی۔ آپ دیکھ لیں، ادارتی صفحہ برقرار ہے۔ کالم چھپ رہے ہیں۔ چھوٹی موٹی کہانی بھی لگتی رہے گی۔

مغرب میں ایڈیٹر اور ہمارے ہاں مالک بہت ہوشیار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی انڈسٹری اور مارکیٹ سے ٹھیک ٹھیک واقف ہوتے ہیں۔ کارکن صحافی جذباتی ہوکر جو بھی کہیں، ادارہ خسارے کا سودا نہیں کرتا۔ مالکان حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی بھی کچھ دیکھ کر کرتے ہیں۔

صحافی میڈیا میں مالکان کی دخل اندازی کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن مالک میر شکیل الرحمان جیسا ہو تو ان کا حق بنتا ہے۔ انھوں نے جرنلزم پڑھی بھی ہے اور اس کے جدید رجحانات سے آگاہ رہتے ہیں۔ میں نے اخبار اور چینل، دونوں میں ان کے وہ فیصلے دیکھے ہیں، جنھوں نے نئے رجحانات جنم دیے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔ جیو، یعنی اپنا ہی چینل آنے کے فوراََ بعد جنگ، یعنی اپنا ہی اخبار فوراََ فیل ہوسکتا تھا۔ انھوں نے ایکسکلوسیو خبریں بڑھادیں۔ لیکن ان کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ چنانچہ انصار عباسی جیسوں کے تجزیے، یا خواہشات، جو بھی کہہ لیں، وہ فرنٹ پیج پر بائی لائن کے ساتھ چھپنا شروع ہوگئیں۔ پاکستان میں اس پر تنقید بھی کی گئی۔ لیکن یہاں نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبار اسی طرح سی این این اور فوکس کا مقابلہ کررہے ہیں۔

مستقبل قریب میں ٹی وی نیوز کا وہی حشر ہونے والا ہے جو اخبارات کا ہوچکا ہے۔ میڈیا گروپس کو بقا کی جنگ پرنٹ اور سیٹلائٹ پر نہیں، انٹرنیٹ پر لڑنی ہے۔ بلکہ لڑرہے ہیں۔ شکیل صاحب بہت پہلے اسے بھانپ گئے تھے۔ بے پناہ وسائل والے عالمی نشریاتی اداروں کے نمبر دیکھیں اور جنگ جیو سے مقابلہ کرلیں۔ اگر آپ اس کھیل سے واقف نہیں ہیں تو بہت حیرت ہوگی۔

اکیسویں صدی کی نسل خبر ٹوئیٹر یا انسٹاگرام سے لیتی ہے، ریڈیو ٹی وی کے بجائے پوڈکاسٹ سنتی ہے اور سینما کے بجائے نیٹ فلکس دیکھتی ہے۔ اگر آپ انھیں اخبار کا اداریہ پڑھوانا چاہتے ہیں تو گویا بیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali