Incholi Nama
انچولی نامہ

انچولی میں بڑے ابا کی گلی میں بڑے بڑے لوگ رہتے تھے۔ دنیا پیسے والوں کو بڑا سمجھتی ہے۔ میں مہربان اور دوسروں کے کام آنے والوں کو بڑا سمجھتا ہوں۔
بڑے ابا کا مکان، جہاں ہم کرائے دار تھے، کارنر کا تھا۔ ساتھ والا مکان جناب رونق حسین کا تھا۔ میں نے انھیں دیکھا تھا لیکن اب ان کے انتقال کو زمانے ہوئے۔ ان کے تین بیٹے تھے جن میں سے منجھلا علی رضا میرا دوست ہے۔ وہ بہت محنتی لڑکا تھا۔ ہم سب کالج میں پڑھتے تھے کہ اس نے پورٹ پر مزدوری شروع کردی۔ وہاں اکثر حادثے ہوتے رہتے تھے۔ کسی کے مشورے پر اس نے لائف انشورنس لے لی۔ پھر وہ کام چھوڑ دیا اور پڑھ لکھ کر سرکاری ملازم ہوگیا۔ ایک دن اس نے بتایا کہ بیس سال مکمل ہونے پر انشورنس کی رقم ملی ہے تو بڑی حیرت ہوئی۔ وقت کیسی تیزی سے گزر جاتا ہے۔
علی رضا کے ساتھ والا مکان بالے بھائی کا تھا۔ وہ پی آئی اے یا ائیرپورٹ پر ملازم تھے لیکن کسی وجہ سے ملازمت ختم ہوگئی۔ انھوں نے گلی کے نکڑ پر کھوکھا رکھا اور چھوٹی موٹی چیزیں اور ٹافیاں بیچنے لگے۔ انھوں نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا تھا جو کبھی کبھی ملنے آتا تھا۔ بدقسمتی سے اس کا جوانی میں انتقال ہوگیا۔ دوسری بیوی سے ایک بیٹا سجاد اور شاید دو بیٹیاں تھیں۔ سجاد اپنا دوست تھا۔ بچپن میں اس کی بہن اسے پکارتی، ٹڈاڈ امی بلارئی ایں۔ کسی نے سن لیا۔ انچولی والوں کو مذاق کرنے کا بہانہ چاہیے۔ اس کے بعد چار عشرے گزر چکے ہیں، سجاد کوئی نہیں پکارتا۔ سب ٹڈاڈ ہی کہتے ہیں۔
سجاد نے بھی کم عمری میں کام شروع کردیا تھا۔ جو لڑکے شادیوں کی مووی بناتے تھے، انھیں تار کھینچنے والے ہیلپرز کی ضرورت ہوتی تھی۔ سجاد نے وہاں سے کام شروع کیا، پھر خود کیمرا چلانا سیکھ لیا۔ مووی بنانے پر نہیں رکا بلکہ ٹی وی چینلوں میں کام کیا۔ ہم دونوں جیو میں کولیگ رہے۔
بالے بھائی کے بعد ایک مکان چھوڑ کے ظریف ماموں کا گھر تھا۔ وہ ہمارے ننھیالی رشتے دار تھے۔ امروہے کے بہت سے مردوں کی طرح پان کھاتے تھے۔ اس زمانے میں بعض مرد جیب میں اسٹیل کی ڈبیا اور کپڑے کا بٹوہ رکھتے تھے۔ ڈبیا میں گیلے کپڑے میں لپٹے ہوئے اور کتھا چونا لگے پان ہوتے تھے۔ بٹوے میں کٹی ہوئی چھالیہ اور تمباکو ہوتا تھا۔ ظریف ماموں کبھی گھر کا اور کبھی بازار کا پان بھی کھاتے تھے۔ انچولی میں پان کی کئی دکانیں تھیں۔ ایک اس کیفے منان کے کارنر پر تھی جو مہاجر پٹھان فسادات میں اتنی بار جلا کہ سب گنتی بھول گئے۔ جب کسی کا دماغ گھومتا، اسی ریسٹورنٹ کو جلادیتا۔ پان کی ایک مشہور دکان حسین بھائی کی تھی۔ وہ کوالٹی بیکری کے سامنے اور کیسٹوں کی دکان کے ساتھ تھی۔ مجھے پان کا شوق نہیں تھا۔ لیکن لتا کشور ڈوئٹس کے کیسٹ خریدنے جاتا تو حسین بھائی سے سادہ خوشبو پان لگوالیتا۔ اس دور کے پنواڑی بھی مہذب اور قاعدے کے ہوتے تھے۔
ظریف ماموں نے کافی مشکل وقت گزارا اور بیروزگاری سہی۔ وہ پرنٹنگ پریس میں کام کرتے تھے۔ کبھی کام ملتا تھا اور کبھی نہیں۔ ان کی بیوی، ہم سب کی نجمہ باجی نے محلے والوں کے کپڑے سینے شروع کردیے۔ امی نے بھی ان سے کپڑے سلوائے۔ وہ بہت اچھی سلائی کرتی تھیں اور ہر وقت ان کے پاس بہت کام رہتا تھا۔ ان کے بیٹے محنتی اور اچھے نکلے۔ ابتدا میں سجاد کی طرح مووی کا کام شروع کیا اور نیوز چینلوں میں کیمرامین بنے۔ اسد بھی جیو میں ہمارے ساتھ تھا اور ڈائریکشن میں آیا۔
بڑے ابا کی گلی میں، ان کے سامنے والا گھر طہیر نفسی صاحب کا تھا۔ وہ بڑے ادیب اور قابل استاد تھے۔ اردو کالج میں نفسیات پڑھاتے تھے۔ جون ایلیا کے قریبی دوست تھے اور ان کی کتابوں میں ان کے مضامین موجود ہیں۔ ان کی بیوی کا نام بھی نجمہ خاتون تھا لیکن ہم انھیں شہزادی خالا کہتے تھے۔ وہ بچوں کو قرآن پڑھاتی تھیں۔ انھیں صرف محلے والے اور امروہے والے نہیں، سارا پاکستان جانتا تھا کیونکہ پی ٹی وی کے ڈراموں میں آتی تھیں۔ شمع اور کئی یادگار ڈراموں میں کام کیا۔ ان کے بیٹے دانش سے میری دوستی رہی جو بہت ذہین نوجوان تھا۔ اس نے اینی میشن کے شعبے میں کمال دکھایا اور غالباََ پاکستان کے اولین اینی میٹرز میں سے ایک تھا۔ کیپٹن سیف گارڈ کی اینی میٹڈ فلم اس نے تخلیق کی۔
بچپن میں محلے کے بچوں کو کچھ پتا نہیں تھا کہ نفسی صاحب کس قدر بڑے آدمی ہیں، شہزادی خالا کتنی مشہور ہیں اور دانش نے بعد میں کیا کارنامے دکھانے ہیں۔ ہماری دلچسپی صرف اس آم کے درخت میں رہتی تھی جو ان کے آنگن میں لگا تھا۔ اس پر کیریاں نمودار ہوتیں تو ہم للچا کر دیکھتے۔ کبھی دوپہر میں کوئی پکا ہوا پھل گلی میں ٹپک جاتا تو بچے لے بھاگتے۔ ایک آم میرے نصیب میں بھی آیا۔ آج تک اس کی مٹھاس یاد ہے۔

