Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Ghulam

Ghulam

غلام

امریکا کا کوئی ایک قائداعظم نہیں ہے۔ اعلان آزادی، اتحاد کے نکات اور آئین پر دستخط کرنے والے سیکڑوں افراد کو فاونڈنگ فادرز کہا جاتا ہے۔ پچاس سال پہلے تاریخ داں رچرڈ مورس نے سات اہم ترین بانیان امریکا کی فہرست بنائی تو اسے بڑی حد تک قبول کرلیا گیا۔ ان میں بنجمن فرینکلن، جارج واشنگٹن، جان ایڈمز، تھامس جیفرسن، جیمز میڈیسن، الیگزینڈر ہملٹن اور جان جے شامل ہیں۔

میں جن تین امریکیوں کا پرستار ہوں، وہ فرینکلن، جیفرسن اور ابراہام لنکن ہیں۔ غلامی ختم کرنے اور اس کی خاطر جان دینے کی وجہ سے لنکن کا درجہ بہت بڑا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل مال کے ایک طرف کانگریس کی بلڈنگ ہے اور دوسری جانب دریائے پوٹومک کے کنارے لنکن کی یادگار اور مجسمہ۔

لنکن کے علاوہ دارالحکومت میں دوسرا اہم مجسمہ تھامس جیفرسن کا ہے۔ ایک گنبد کے نیچے 17 فٹ کا یہ مجسمہ دیکھنے لائق ہے۔ خاص طور پر مغرب کے وقت دریا کے کنارے اس یادگار پر موجود لوگوں پر سحر طاری ہوجاتا ہے۔ جیفرسن نے امریکی آئین تحریر کیا اور بعد میں امریکا کے تیسرے صدر بنے۔ دنیا کے سب سے بڑے کتب خانے یعنی کانگریس لائبریری کا آغاز انھیں کی کتابوں سے ہوا تھا، جن میں ایک قرآن بھی موجود تھا۔ میں اس قرآن کی پی ڈی ایف اپنے کتابوں والے گروپ میں پیش کرچکا ہوں۔

جیفرسن کے مجسمے کے ساتھ ان کے کئی اقوال لکھے ہیں جو بعد میں لنکن کے لیے مشعل راہ بنے ہوں گے۔ ان میں بار بار کہا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔ تمام انسان برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ سب کو زندہ اور آزاد رہنے اور خوشی کے حصول کا حق ہے۔

میں جیفرسن کا مداح ہونے کی وجہ سے سو باتیں لکھ سکتا ہوں۔ لیکن کیوں نہ ان کے ایک پڑپوتے شینن لانائر کی بات سنیں۔ جیفرسن اور لانائر کے درمیان چھ پشتوں کا فاصلہ ہے۔ لیکن پڑپوتے کو جیفرسن پر اعتراض ہے کہ انھوں نے غلام کیوں رکھے ہوئے تھے۔

یہ سچ ہے کہ جیفرسن کے پاس چھ سو غلام تھے۔ ان میں ان کی ایک سالی بھی شامل تھیں۔ بیوی کے انتقال کے بعد جیفرسن نے ان خاتون سے تعلقات قائم کیے اور ان سے بچے بھی ہوئے۔ لانائر انھیں کی اولاد میں سے ہیں۔ جیفرسن نے اپنی زندگی میں صرف دو اور وصیت میں پانچ غلاموں کو آزاد کیا۔ ان کی سوانح لکھنے والے کہتے ہیں کہ جیفرسن غلامی کے خلاف تھے، اس کا ثبوت ان کی تحریریں اور اقدامات ہیں۔ انھوں نے بطور صدر غلامی کو محدود کیا اور غلاموں کی بین الاقوامی تجارت پر پابندی لگائی۔ انھوں نے اپنے غلاموں کو اس لیے آزاد نہیں کیا کہ انھیں اس عمل سے نسلی فسادات ہونے کا خطرہ تھا۔ اس کے علاوہ ان پر بہت زیادہ قرضہ بھی تھا۔

شینن نالائر کہتے ہیں کہ جیفرسن نے جو کہا، اس پر عمل نہیں کیا، اس لیے ان کا مجسمہ ہٹا دینا چاہیے۔

میں یہ سب دیکھتا ہوں اور پلٹ کر اسلام کے شاندار ماضی پر نگاہ ڈالتا ہوں۔ میرا تعلق سادات سے ہے۔ اب تو ڈی این اے ٹیسٹ بھی کروالیا ہے۔ لیکن کیا سادات یا صحابہ کی عظمت کے دھوکے میں ہم غلام بنانے اور غلام رکھنے کی غیر انسانی روایت کو نظرانداز کرسکتے ہیں؟

میں الہامی کتب پڑھتے ہوئے بار بار خود سے یہ سوال پوچھ چکا ہوں، اور کئی بار علما سے بھی کہ سارے جہانوں کا مالک خدا سیکڑوں صفحات کی کتابیں اور صحیفے نازل کرنے ہوئے غلامی ختم کرنے والی ایک آیت کیسے بھول گیا۔

مجھے وہ سارے جواب معلوم ہیں جو خدا نے الہام نہیں کیے لیکن علمائے مذہب اور متکلمین نے خود گھڑ لیے ہیں۔ مثلا یہی کہ اس زمانے میں یونہی ہوتا تھا۔ غلامی کا ادارہ ختم کیا جاتا تو معیشت بکھر جاتی اور غلام بھوکے مر جاتے۔

امریکا کی خانہ جنگی کو ابھی پونے دو سو سال ہوئے ہیں۔ اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ شمالی ریاستیں اور صدر ابراہام لنکن غلامی ختم کرنا چاہتے تھے اور جنوبی ریاستیں اس کے خلاف تھیں۔ ان کا وہی موقف تھا جو ہمارے علما کا ہے۔ لیکن لنکن نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ غلامی ختم کی اور اس کی پاداش میں قتل کیے گئے۔

آج کے آزاد انسان کے لیے غلامی کا تصور کرنا مشکل کام ہے اس لیے باتیں بناتا ہے اور قصے گھڑتا ہے۔ سوچیں کہ آپ سونے جاگنے، کھانے پینے، کام کرنے کے لیے کسی کے حکم کے محتاج ہوں۔ مالک کی یا اس کے حکم پر کسی اور کی جنسی خواہش پوری کرنے پر مجبور ہوں۔ ممکن ہے کہ کسی ایک یا چند مقدس شخصیات نے اپنے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہو، لیکن غلامی ختم نہ کرکے انھوں نے ان لوگوں کو فائدہ پہنچایا جو ان جتنے اچھے نہیں تھے۔

میری، آپ کی، ہم سب کی محترم اور مقدس شخصیات نے زندگی بھر غلام رکھے، لونڈیوں سے نکاح کے بغیر جنسی تعلقات استوار کیے اور ان سے بچے بھی ہوئے۔ کسی بھی دور کی اخلاقیات میں اسے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر آپ کے پاس اس کے حق میں دلائل ہیں تو آپ بھی اخلاقیات پر گفتگو کرنے کے اہل نہیں ہیں۔

کچھ لوگ ایسی باتوں پر اچانک فلسفی بن جاتے ہیں اور خیال آرائی کرتے ہیں کہ آج کا انسان بھی اپنے آجروں کا غلام ہے اور ان کا کہنا ماننے پر مجبور ہے۔ کیا واقعی آپ اپنے آجر کی مرضی سے کھاتے پیتے ہیں؟ کیا وہ آپ سے جنسی مشقت کرواتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ پولیس کیس بنتا ہے۔ ویسے ایسی فلسفیانہ گفتگو کے بجائے بہتر ہوگا کہ آپ غلامی سے استعفا دیں اور اپنا کاروبار کریں۔ کس نے روکا ہے؟

جس دن پسماندہ ملکوں کے عوام کا شعور مہذب معاشروں جتنا بلند ہوگا اور انھیں غلامی اور آزادی کے مفہوم سمجھ میں آئیں گے، اس دن وہ اپنے مذاہب کی زنجیریں ایک جھٹکے میں توڑ لیں گے۔ مذہب سے متنفر کرنے کے لیے یہ ایک نکتہ کافی ہے۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt