Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Ghoray Shah

Ghoray Shah

گھوڑے شاہ

انچولی کی اس گلی میں تصویب صاحب کے سامنے والے مکان میں جو صاحب رہتے تھے، ان کا نام کبھی معلوم نہیں ہوا۔ لیکن ساری دنیا انھیں گھوڑے شاہ کے نام سے یاد کرتی تھی۔ کلف لگے کپڑے پہنتے۔ آنکھوں پر سنہری فریم کا چشمہ ہوتا۔ ایک خاص شان والے انداز سے چلتے۔ پھر ایک دن کسی کام سے صدر پاسپورٹ آفس جانا ہوا۔ وہاں دیکھا کہ وہ دفتر کے باہر میز کرسی رکھے بیٹھے ہیں، جیسے پیسے لے کر پاسپورٹ بنوانے والے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ ایک بلند قامت بت دھڑام سے گر پڑا۔

ان کے بڑے بیٹے نے محلے میں خوب نام پیدا کیا۔ جاندار جسم تھا۔ مونچھیں مروڑ کے رکھتے تھے۔ پیر میں بہت موٹی سی بیڑی پہنے رہتے تھے۔ ہتھ چھٹ بھی تھے۔ ایک بار عشق عاشقی کے چکر میں کسی دوست پر گولی چلادی تھی۔ پھر کراچی کی مشہور پارٹی کی مہربانی سے ایک بینک میں ملازم ہوگئے۔ یہ مہربانی اس لیے ہوئی تھی کہ کسی پھڈے میں فائرنگ سے زخمی ہوگئے تھے۔ واللہ اعلم۔ ان کے مزید قصے بھی سنے ہیں لیکن ذکر خیر نہیں اس لیے رہنے دیتے ہیں۔

گھوڑے شاہ کے برابر والا گھر پروفیسر کاظم کا تھا۔ وہ کمزور دل کے آدمی تھے۔ کراچی کے پرآشوب دنوں میں شدید اینگزائٹی کا شکار ہوئے اور اسی گھبراہٹ میں ایک دن دل نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ان کا بیٹا خرم میرا دوست تھا۔ وہ نوجوانی میں پڑھنے کے لیے امریکا آیا اور یہیں بس گیا۔ آج کے انچولی والوں کو نہ پروفیسر صاحب یاد ہوں گے اور نہ ان کا بیٹا۔ لیکن ان کی بیگم کاکا جنن کو بہت لوگ جانتے ہیں کیونکہ ان کے گھر ایک معجزے کے بعد بی بی کی زیارت قائم ہوئی۔ غالباََ شب عاشور کے جلوس میں قمہ کا ماتم بھی وہیں سے شروع ہوا۔

جب ہم اس گلی میں رہتے تھے، اظفر اور عمار پروفیسر کاظم کے کرائے دار تھے۔ دونوں سے میری دوستی تھی۔ اظفر انچولی کے ذہین ترین لڑکوں میں سے ایک تھا۔ سوپر اے ون گریڈ والا۔ پڑھ لکھ کے ٹورنٹو چلا گیا۔ اتفاق سے جس سال میں نے حج کیا، وہ بھی آیا ہوا تھا۔ برسوں بعد مسجد نبوی کے صحن میں انچولی کے دوستوں کی ملاقات ہوئی۔ رشید ترابی پارک کے سامنے اظفر کے ماموں کا گھر تھا۔ میں اس کے ایک پورشن میں کرائے پر رہا تو ان دنوں عمار اپنی امی اور چھوٹے بھائی کے ساتھ وہیں رہتا تھا۔ اب عمار بھی کینیڈا منتقل ہوچکا ہے۔

اظفر عمار کے والد کا جوانی میں انتقال ہوگیا تھا۔ جن دنوں میں ایکسپریس میں کام کرتا تھا، ایک دن اظفر عمار کے رشتے دار انور شاہ جی میرے پاس آئے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جن قبروں پر کوئی نہیں آتا، گورکن ان میں نئے مردے دفن کردیتے ہیں۔ لیکن وہ ہر ہفتے اظفر کے والد کی قبر پر جاتے تھے۔ اس ہفتے گئے تو قبر غائب تھی۔ گورکنوں نے وہاں کسی اور کو دفنادیا تھا۔ انھوں نے کافی شور مچایا۔ میں نے وہ خبر ایکسپریس میں بھی چھاپی۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ پاکستان میں زندہ لوگ غائب ہوکر نہیں ملتے، میت کہاں سے ملتی۔

انور شاہ جی میرے قریبی دوست کامی باس کے بڑے بھائی اور انچولی کی مشہور شخصیت تھے۔ سب لوگ ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ مسجد امام بارگاہ کی انتظامیہ کمیٹی میں بھی رہے۔ ایک دن مجھے مسجد خیر العمل کی چھت پر لے گئے اور آم کا پیڑ دکھایا جس پر دسمبر میں کیریاں نکل رہی تھیں۔ انھوں نے اسے معجزہ قرار دیا۔ میں بھی حیران ہوا۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ آم کی بعض اقسام سردیوں میں پھل دیتی ہیں۔

انور بھائی پیپلز پارٹی کے ہمدرد تھے۔ میں بھی اور میرے دوست بھی، جن میں عابد منصور، آصف رضا، نیر عباس اور ظاہر ہے کہ کامی باس شامل ہیں۔ خیر، ہم تو خالی پیلی کے حامی تھے لیکن انچولی میں پیپلز پارٹی کے دلیر کارکن بھی رہتے تھے بلکہ اب بھی ہیں جنھوں نے بدترین حالات میں پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس بات کو معمولی نہ سمجھیں کیونکہ انچولی کو ایم کیو ایم کا قلعہ کہا جاتا تھا۔ وہاں بھٹو کا نعرہ لگانا بڑی جرات کا کام تھا۔ لیکن ایک دن ایم کیو ایم کے عروج پر انچولی کے قلب میں انور شاہ جی نے ایسا نعرہ لگایا کہ سب خوب ہنسے اور میں آج تک نہیں بھول سکا۔ کئی لونڈے چلارہے تھے، نعرائے مہاجر، نعرائے مہاجر۔ انور بھائی نے کہا، ہاں ہاں بھئی، نہ رہے مہاجر۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari