Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Geo Ke Zamane Ki Barishen

Geo Ke Zamane Ki Barishen

جیو کے زمانے کی بارشیں

روزنامہ جنگ میں ملازمت کے دنوں کی ایک بارش یاد آرہی ہے۔ جولائی کے آخری دن تھے۔ سال 2002 ہوگا یا 2003۔ جنگ لندن کا کام رات دس بجے ختم ہوجاتا تھا۔ باہر نکلا تو چندریگر روڈ پر پانی کمر تک آرہا تھا۔ بس ملنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ میں برنس روڈ کی طرف چل پڑا۔ راستے میں مکمل اندھیرا تھا۔ نہ کوئی گاڑی، نہ کوئی بندہ۔ لیکن برنس روڈ پر رش لگا تھا۔ ڈبلیو گیارہ بہت دیر میں کوئی آتی لیکن بھری ہوئی اور پھر اسٹاپ پر چڑھنے والوں کا رش۔

ایک ٹیکسی لڑھکتی ہوئی آئی۔ کئی لوگوں نے بات کی اور اس نے منع کردیا۔ پیسے زیادہ مانگ رہا تھا۔ میں نے بتایا کہ انچولی جانا ہے۔ اس نے شاید سو روپے مانگے۔ میں نے کہا، ایک شرط ہے۔ کسی اور کو نہیں بٹھاو گے۔ اس نے کہا کہ پھر 120 لوں گا۔ میں بیٹھ گیا۔

راستے میں بھی کافی پانی ملا۔ لیکن ڈرائیور ہوشیار تھا۔ اس نے بتایا کہ جب بارش کا پانی جمع ہو تو نالے کے قریب والی سڑکوں کو استعمال کرنا چاہیے کیونکہ وہ اونچی بنائی جاتی ہیں۔ پتا نہیں یہ فارمولا اب بھی استعمال کیا جاتا ہے یا نہیں۔ لیکن اس نے مجھے آدھ پون گھنٹے میں گھر پہنچادیا۔ انچولی میں بھی بارش ہوئی تھی لیکن گھر والوں کو علم نہیں تھا کہ شہر کا کیا حال ہوچکا ہے۔

ایسا ایک بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی اور بعد میں بھی طوفانی بارشیں ہوتی رہی ہیں۔ لوگ یہی کہتے ہیں کہ پرانے شہر میں پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں تھا کیونکہ یہاں بارش بہت کم ہوتی تھی۔ لیکن اب شہر کئی گنا بڑا ہوچکا ہے۔ اب طوفانی بارشیں بھی ہوتی ہیں۔ پھر پانی کیوں جمع ہوتا ہے؟

جیو میں ملازمت کے دور میں میرے پاس اپنی گاڑی ہوتی تھی لیکن اس میں زیادہ عذاب تھا۔ گھر سے دفتر کے درمیان کئی مقامات ایسے آتے جہاں پانی جمع ہونے کی وجہ سے گھنٹا گھنٹا بھر ٹریفک پھنستا تھا۔ ایک بار مجھے دفتر سے گھر پہنچنے میں چھ گھنٹے لگے۔

جیو کے زمانے میں بھی ایک بار ایسی بارش ہوئی کہ بعض دوستوں کو ٹرک پر بیٹھ کر دفتر آنا پڑا کیونکہ اس سے نیچی کوئی گاڑی چندریگر روڈ پر چل ہی نہیں سکتی تھی۔ شاید جیو کے ایم ڈی اظہر عباس بھی ٹرک پر بیٹھ کر دفتر آئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ عائشہ بخش نے سولہ گھنٹے خبریں پڑھی تھیں کیونکہ ہنگامی صورتحال تھی۔

کراچی کا برا حال دیکھ کر خیال آتا ہے کہ لاہور اور دوسرے شہروں میں اچھا انتظام ہوتا ہوگا۔ لیکن پانی تو وہاں بھی بہت جمع ہوتا ہے۔ تبھی تو میاں شہباز شریف اپنے وزارت اعلی کے دنوں میں لانگ بوٹ پہن کر باہر نکل آتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں کراچی کے مقابلے میں جلد نکاسی ہوجاتی ہے۔

ادھر شمالی ورجینیا میں کافی بارش ہوتی ہے۔ ہر ہفتے موسلادھار نہ ہو تو چھینٹا ضرور پڑتا ہے۔ لیکن تیز بارشیں ہر مہینے ہی ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایسی کہ ونڈاسکرین سے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ یہاں محکمہ موسمیات اور امدادی ادارے کوئی چانس نہیں لیتے۔ معمولی سا بھی خدشہ ہو تو اربن فلڈنگ کی وارننگ جاری کردیتے ہیں۔ لیکن میں نے اتنے برسوں میں کبھی سڑکوں پر پانی جمع نہیں دیکھا۔ پانی آتا ضرور ہے لیکن فٹ پاتھ کے نیچے نکاسی کا عمدہ انتظام ہوتا ہے۔

میرے گھر کے پاس اتفاق سے ایک خشک نالا بھی ہے۔ اس میں بے شمار درخت اور گھاس پھونس اگی ہوئی ہے۔ گلہریاں اور دوسرے جانور اچھلتے کودتے رہتے ہیں۔ پرندوں کے گھونسلے بھی ہیں۔ کبھی یہاں پانی بہتا ہوگا۔ لیکن میں نے طوفانی بارشوں میں بھی اس نالے کو سیراب نہیں دیکھا۔ یہ اتنا گہرا ہے کہ طوفان نوح بھی آیا تو ان شا اللہ اسے نہیں بھر پائے گا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari