Culture Barqarar Rahega
کلچر برقرار رہے گا

ہومر کی الیاڈ اور اوڈیسی بہت دلچسپ داستانیں ہیں۔ ان میں اصل قصے بادشاہوں اور بہادر جنگجووں کے ہیں لیکن دیوتاوں کا جابجا ذکر ہے۔ وہ دیوتا یونان کے پہاڑی سلسلے اولمپس پر رہتے تھے۔ ہر دیوتا کسی خاص مظہر کا خدا تھا۔ زیوس تمام دیوتاوں کا بادشاہ تھا۔ اس نے یہ بادشاہی پرانے خداوں کو شکست دے کر حاصل کی تھی۔
قدیم یونانی باشندوں نے دیوتاوں کے مندر بنائے ہوئے تھے۔ وہ ان دیوتاوں کی خوشنودی کی خاطر پوجا کرتے تھے۔ ان کی ناراضی سے بچنے کے لیے چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ وہ ان پر ویسا ہی ایمان رکھتے تھے جیسا آپ خدا، انبیا اور فرشتوں پر رکھتے ہیں۔
آج قدیم یونانی مذہب نہیں رہا۔ کوئی ان خداوں پر ایمان نہیں رکھتا۔ لیکن الیاڈ، اوڈیسی اور ان جیسی متعدد قدیم داستانیں زندہ ہیں۔ وہ ادب کا شاہکار ہیں۔ ان کا ہر زندہ زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اب وہ پوری دنیا کا مشترکہ ورثہ ہیں۔
جب میں کہتا ہوں کہ میں عقیدے والا شیعہ نہیں، کلچر والا شیعہ ہوں تو فری تھنکرز دوست ہنس پڑتے ہیں۔ میں ایک عام آدمی، معمولی سا طالب علم ہوں اس لیے وہ ہنس سکتے ہیں۔ لیکن اتفاق سے رچرڈ ڈاکنز نے بھی پچھلے دنوں یہی کہا کہ وہ کلچرلی مسیحی ہے۔
یہی ہوتا ہے۔ یہی ہوگا۔ لوگ رفتہ رفتہ عقائد کی کمزوری بھانپ کر ان سے دور ہوتے جائیں گے۔ لیکن کلچر برقرار رہے گا۔ لوگ کرسمس مناتے رہیں گے۔ ہولی پر رنگ کھیلتے رہیں گے۔ محرم کے جلوس میں سیاہ لباس پہنچ کر شرکت کرتے رہیں گے۔
آج کا فری تھنکر یہ سمجھتا ہے کہ مذہب چھوڑنے والے کو اپنا مذہبی خاندان بھی چھوڑ دینا چاہیے ورنہ انھیں گن پوائنٹ پر کنورٹ کرنا چاہیے۔ اپنے دوستوں کو بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ اپنی محفلوں کو بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ اپنے ماضی کو بھی مٹا دینا چاہیے۔ اپنی تاریخ کو بھی مسترد کردینا چاہیے۔
میں فری تھنکرز کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ میں خود کو ان کا حصہ سمجھتا ہوں۔ جو شخص مطالعہ کرکے اور سوچ بچار کر فری تھنکنگ اختیار کرتا ہے، وہ بہادری والا کام کرتا ہے۔ اس بہادری کے بعد بے وقوفی نہیں کرنی چاہیے۔
آپ جوش ملیح آبادی، سبط حسن، علی عباس جلالپوری اور جون ایلیا سے زیادہ ذہین نہیں۔ ان میں سے کوئی مذہبی نہیں تھا۔ وہ آپ سے بہت پہلے عقائد کی حقیقت جان گئے تھے۔ لیکن انھوں نے کلچر کو مسترد نہیں کیا۔ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائے رکھا۔ ان کا واسطہ آپ سے پڑتا تو وہ بتاتے کہ وہ کیوں مرثیے کہتے تھے، کیوں محرم مناتے تھے، کیوں اپنی شاعری میں کربلا کے استعارے استعمال کرتے تھے۔
اوڈیسی پڑھنے کے لیے آپ کا یونانی ہونا، الف لیلہ پڑھنے کے لیے عرب ہونا، اسرائیلیات پڑھنے کے لیے یہودی ہونا اور انیس کو پڑھنے کے لیے شیعہ ہونا لازم نہیں۔ ادبی ذوق واحد شرط ہے۔