Columbus Kahani
کولمبس کہانی

جارجیا کے نیوز چینل میں جاب ملی تو وہاں رہائش کا مسئلہ درپیش تھا۔ یہ نیوز چینل کولمبس میں تھا جو الاباما سے جڑا ہوا ہے۔ ایک فلائی اوور سے ادھر چلے جائیں تو الاباما ہے، ادھر رہیں تو جارجیا ہے۔ وہاں کے لوکل نیوز چینل بھی دونوں اطراف کی کوریج کرتے ہیں۔
یہ مارچ 2023 کی بات ہے۔ میں نے جانے سے پہلے نیوز چینل کے قریب ایک کمرا ائیر بی این بی پر دو روز کے لیے بک کرلیا۔ ارادہ تھا کہ ان دو دنوں میں کوئی مستقل رہائش تلاش کرلوں گا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ کئی ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن اسی رہائشی علاقے میں قائم ہیں۔
کولمبس اور الاباما میں جرائم کی شرح بلند ہے۔ ویسے بھی لوکل نیوز چینل کرائم ہی زیادہ چلاتے ہیں کیونکہ سیاست نیشنل چینلوں پر زیادہ چلتی ہے۔ صبح شام فائرنگ، قتل، منشیات اور مافیا کی خبریں ایڈٹ کرنا پڑتیں اور دل ہولتا رہتا۔
میں نے جو کمرا بک کروایا تھا، اس ٹاون ہاوس کی مالکہ ایک بزرگ خاتون تھیں جو اپنی بہن کے ساتھ رہتی تھیں۔ دو کمرے کولمبس گھومنے یا کام سے آنے والوں کو کرائے پر دیتی تھیں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ میں روزگار کے سلسلے میں آیا ہوں تو انھوں نے مستقل وہیں رہنے کی پیشکش کردی۔ کرایہ کم تھا اور دفتر پیدل بھی جایا جاسکتا تھا۔ انھوں نے باورچی خانہ دکھاکر کہا کہ میں اسے اور واشنگ مشین بھی استعمال کرسکتا ہوں۔ زندگی میں پہلی بار کتوں کا خوف ختم ہوا اور ان کے کتے سے دوستی ہوگئی۔ غریب ہمارے سمبا سے بھی چھوٹا اور ڈرپوک تھا۔ اکثر بھوک سے بلبلاتا رہتا۔
خاتون کی بہن کو اسکڈزوفرینیا تھا اور یہ بات انھوں نے پہلے ہی دن بتادی۔ اس کے بعض پیشنٹ وائلنٹ ہوتے ہیں لیکن ان کی بہن ایسی نہیں تھیں۔ بلکہ مجھے براہ راست گفتگو میں کبھی احساس نہیں ہوا کہ انھیں مسئلہ ہے۔ لیکن ایک دن میں کمرے میں بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا تو باہر سے زور زور سے ہنسنے کی آوازیں آئیں۔ میں نے تجسس میں کان لگاکر سنا تو دونوں بہنیں لایعنی باتیں کرکے قہقہے لگارہی تھیں۔
اگلے دن خاتون نے بتایا کہ کبھی کبھی ان کی بہن سمجھ میں نہ آنے والی باتیں کرکے ہنستی رہتی ہے۔ پہلے وہ الجھتی تھیں یا ناراض ہوتی تھیں۔ لیکن اب بہن کے ساتھ اسی رو میں چل پڑتی ہیں۔ وہ سب مذاق ہوتا ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ ڈرے تو نہیں۔ میں نے بتایا کہ میں اس بارے میں کافی جانتا ہوں اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
کولمبس میں سب سے بڑا مسئلہ کھانے کا تھا۔ میں کھانا بنالیتا ہوں لیکن وہاں باورچی خانہ استعمال کرنے کو دل نہیں چاہا۔ کئی ماہ وہاں رہا اور تقریباََ سبھی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس کا کھانا چکھا۔
کولمبس میں کافی بڑی فوجی چھاونی ہے۔ بہت سے فوجی وہاں رہتے ہیں اور دورہ کرنے والے یا مختصر اسائنمنٹ پر آنے والے فوجی شہر میں رہائش لے لیتے ہیں۔ میں جب کمرا ڈھونڈ رہا تھا تو پتا چلا کہ بعض لوگوں نے اپنے مکانوں کے کمرے فوجیوں کو بھی کرائے پر دیے ہوئے ہیں۔
کولمبس میں تنہا رہنے کی وجہ سے میرے پاس وقت کافی تھا اس لیے وہاں بھی فرصت میں اوبر چلائی۔ چھوٹا سا شہر تھا، زیادہ رائیڈز نہیں ملتی تھیں۔ واشنگٹن میں ایک کے بعد ایک سواری ملتی ہے۔ وہاں بعض اوقات گھنٹا گھنٹا بھر خالی گھومنا پڑتا۔ کولمبس میں ائیرپورٹ بھی ہے لیکن دن میں ایک پرواز آتی اور چند مسافر ہوتے۔
کئی بار دور کی سواریاں بھی ملیں۔ اٹلانٹا سو میل دور ہے، وہاں کی رائیڈز مل جاتی تھیں۔ لیکن واپس خالی آنا پڑتا۔ الاباما کے شہروں کی سواریاں بھی ملتیں لیکن وہاں سے بھی رائیڈز لینے پر پابندی تھی۔ میں مصروف رہنے کے لیے انھیں قبول کرلیتا تھا۔ اس چکر میں دونوں ریاستوں کا کافی حصہ دیکھ لیا۔
جن دنوں میں استعفا دے چکا تھا اور واپسی کی تیاری کررہا تھا تو ائیرپورٹ سے ایک ہندو جوڑا ملا۔ انھوں نے گفتگو شروع کی اور مجھے آگاہ کیا کہ کولمبس میں کافی مسلمان اور کچھ پاکستانی بھی رہتے ہیں۔ ایک مسجد بھی ہے۔ میں نے کہا، شکر ہے کہ کسی سے سامنا نہیں ہوا۔
میں فرصت سے پریشان رہتا تھا اور ہفتہ وار دو چھٹیوں کو گزارنا مشکل ہوجاتا تھا۔ ایک دن عجیب حرکت کر بیٹھا۔ ایک سواری کو کہیں اتارا تو انڈین ریسٹورنٹ نظر آیا۔ میں دیسی کھانے کے لالچ میں گھس گیا۔ ہفتے کی شام تھی اس لیے کافی لوگ موجود تھے۔ ایک ویٹر نے خیرمقدم کیا اور ایک میز تک لے جاکر پوچھا، کیا کھائیں گے؟ میں نے مینو مانگا تو اس نے کہا، فی الحال سب دوسری میزوں پر لوگ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کچھ خاص چاہتے ہیں تو ایسے ہی بتادیں۔ میں نے بریانی لانے کو کہا اور فرمائش کی کہ اگر چکن کڑاہی بنواسکتے ہیں تو وہ پارسل کروادیں۔ وہ آرڈر لے کر رخصت ہوا۔
اتفاق سے ساتھ والی میز کے لوگ اٹھے تو میں نے وہاں سے مینو اٹھالیا۔ قیمتیں دیکھ کر میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ میں چپکے سے نکلنے کی فکر میں تھا کہ گیٹ پر غالباََ منیجر صاحب نے روک لیا کہ کدھر چلے؟ میں نے کہا، میں گاڑی غلط جگہ پارک کر آیا تھا۔ وہ سامنے لے آوں تو تسلی ہو۔ انھوں نے کہا، ہاں جلدی سے لے آئیں کیونکہ پولیس والے فوراََ ٹکٹ لگادیتے ہیں۔ میں تیر کی طرح نکلا اور آئندہ اس طرف جانے سے توبہ کی۔

