Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Classroom Management Workshop

Classroom Management Workshop

کلاس روم منیجمنٹ ورکشاپ

امریکا میں اسکول ائیر کے آغاز سے پہلے ٹیچرز کو صرف ٹیکنالوجی نہیں بلکہ لیسن پلاننگ، اسسیسمنٹ، گریڈنگ اور کلاس روم منیجمنٹ کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ ہر ٹیچر یہ تربیت حاصل کرکے آتا ہے۔ لیکن امریکی نظام کی خوبی ہے کہ ہر سال اور بعض اوقات سال میں کئی بار ورکشاپس کروائی جاتی ہیں تاکہ آپ کو یاد نہ رہے یا پہلی بار میں نہ سیکھ سکے ہوں تو دوسری تیسری بار میں سیکھ جائیں۔ ایسا صرف ایجوکیشن میں نہیں، ہر شعبے میں کیا جاتا ہے۔ آپ امریکا میں کام کرنے والے کسی بھی پروفیشنل سے پوچھ لیں، وہ آپ کو سال بھر کی تربیتی ورکشاپس کی فہرست بتادے گا۔ حد یہ کہ آپ مکان خریدنا چاہیں، اپنا کاروبار شروع کرنا چاہیں، یا مزدوری ہی کرنی ہو، آپ کے لیے خاص کورسز دستیاب ہوں گے۔

ایک اسکول ٹیچر کو سال میں کم از کم پچیس کورسز کرنا پڑتے ہیں۔ میں نے صرف آج کی تاریخ میں اسکول میں چھ ورکشاپس میں شرکت کی ہے۔ کل اسکول ڈسٹرکٹ کے لیول پر چھ ورکشاپس طے ہیں جن کے لیے دوسرے اسکول جانا پڑے گا۔ ہر بار کوئی نئی چیز سیکھنے کو ملتی ہے۔

آج کلاس روم منیجمنٹ کی ورکشاپ میں ایک دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ طلبہ باتوں میں لگے ہوں تو انھیں کیسے متوجہ کیا جائے۔ ہماری انسٹرکٹر نے بتایا کہ ہمارے دماغ کا بایاں حصہ اسپیچ یعنی بولی جانے والی آوازوں پر دھیان دیتا ہے اور دایاں حصہ موسیقی پر۔ البتہ گانے میں چونکہ دونوں آوازیں شامل ہوتی ہیں، اس میں دونوں حصے مل کر کام کرتے ہیں۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جب کلاس روم میں بچے شور مچارہے ہوں یا ایک دوسرے سے باتوں میں لگے ہوں تو چلا چلا کر انھیں متوجہ کرنے میں ہلکان نہ ہوں۔ ہلکا سا میوزک بجائیں اور دیکھیں کہ سب متوجہ ہوجائیں گے۔ اس غرض سے موسیقی کا ایک آلہ خاص کلاس روم کے لیے ملتا ہے جسے چائم بیل سمجھ لیں۔

پاکستان کے ٹیچرز پہلی بار امریکی کلاس روم دیکھتے ہیں تو کچھ تعجب اور کچھ غصہ آتا ہے۔ وجہ یہ کہ آپ بچوں پر سختی نہیں کرسکتے۔ چیخ چلا نہیں سکتے۔ حد یہ کہ بچہ زبان درازی کرے تو جواب دینا منع ہے۔ بار بار بتایا جاتا ہے کہ بچہ برے رویے کا مظاہرہ کرے تو صرف ایک بار سمجھائیں۔ وہ باز نہ آئے تو نظرانداز کردیں۔ البتہ ہنگامہ مچائے یا مار پیٹ کرے تو اسکول سیکورٹی کو طلب کیا جاسکتا ہے۔

ایک اہم بات یہ بتائی گئی کہ ٹیچر کا کام صرف پڑھانا نہیں، اچھا رویہ سکھانا بھی ہوتا ہے۔ اچھا رویہ سکھانے کا مطلب ویسا ڈسپلن نہیں، جیسا ہمارے ہاں ہوتا ہے جس میں بچہ کلاس روم میں سانس روکے بیٹھا رہتا ہے۔ اس کا مطلب ہے مہذب انسان بننا۔ مثلاََ کے جی کلاس میں بچے کو سکھایا جاتا ہے کہ چھینک آئے تو اپنے بازو کو موڑ کر آستین میں منہ ڈال کر چھینکنا ہے۔ یہ ایسی پختہ عادت بن جاتی ہے کہ میں نے بوڑھوں کو اسی طرح چھینکتے دیکھا ہے۔ بات کرنا سکھایا جاتا ہے۔ یعنی جب کوئی بول رہا ہو تو اس کے خاموش ہونے تک سننا ہے اور اپنی باری پر بولنا ہے۔ یہ کام ہمارے ہاں قبر میں پاوں لٹکانے کے وقت تک کوئی نہیں سیکھتا۔

اگر کلاس روم میں بچہ سیکھنے کے عمل میں شریک ہے تو یہ اچھا رویہ ہے۔ باتیں کرنا، کھانا پینا یا زیادہ سوال پوچھنا خراب رویے میں شمار نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی طالب علم برا رویہ اختیار کرے تو اسے اس کا انتخاب قرار دیا جاتا ہے۔ یعنی ہم نے سمجھا دیا۔ اب وہ برے رویے کا انتخاب کرسکتا ہے لیکن اس کے نتائج بھگتے گا۔ برے رویے کے ردعمل طے شدہ ہیں۔ یہ نہیں کہ ٹیچر اپنی مرضی چلائے۔ بچے کیا کچھ کرسکتے ہیں اور انھیں کیا کچھ بھگتنا پڑسکتا ہے، یہ بات بچوں اور ان کے والدین کو ضابطہ اخلاق فراہم کرکے شروع ہی میں بتادی جاتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور ٹھیک رہتا ہے۔ لیکن ایک سسٹم ہے اور سب اس سسٹم پر عمل کرتے ہیں۔ کچھ بچے بگڑ جاتے ہیں اور وہ ان کا انتخاب ہوتا ہے۔ لیکن اسکول، کاونٹی اور ایجوکیشن سسٹم اپنی بہترین کوشش ضرور کرتا ہے۔ اس کوشش کی وجہ سے ایک مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اسے بوالعجبی سمجھیں کہ جرائم پیشہ افراد بھی آستین میں چھینکتے ہیں، کسی کی بات نہیں کاٹتے، کچرا سڑک پر نہیں پھینکتے اور ٹریفک سگنلز کا احترام کرتے ہیں۔ یہ امریکی اسکولوں کی اچھی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali