Bari Nadani Hai
بڑی نادانی ہے

مذہبی افراد اور معاشرے کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر مسئلے کے حل کے لیے آسمانی طاقتوں کے کُن یا آسمان سے اترنے والے مسیحا کے منتظر یا خواہش مند رہتے ہیں۔ بونیر ہو یا صوابی یا کراچی، کہیں بھی قدرتی آفت کو کوئی حکومت نہیں روک سکتی۔ آفت آنے سے پہلے اور بعد میں بھی اتنا ہی کام کیا جاسکتا ہے جتنا بجٹ میسر ہوتا ہے۔
غریب اور مقروض ملک کا بجٹ کتنا ہے اور اس میں سے سویلین حکومتوں کے ہاتھ کتنا لگتا ہے، یہ حساب کم لوگ جانتے ہیں۔ اس رقم میں کرپشن ضرور ہوتی ہے لیکن نہ بھی ہو تو اس سے سارے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
خود عوام کا حال یہ ہے کہ انکم ٹیکس کوئی دینا نہیں چاہتا۔ تاجر معیشت ڈاکومنٹ نہیں ہونے دیتے اور ہڑتالوں پر اتر آتے ہیں۔ ٹرانسپورٹرز اندھی کمائی ہونے کے باوجود قابو سے باہر ہیں۔ اس پر شور سب ایسے مچاتے ہیں جیسے سیاست دانوں کو امریکا کے برابر بجٹ ملتا ہے اور وہ سب ڈکار جاتے ہیں۔
جب میں کراچی والوں کو پیپلز پارٹی کو برا بھلا کہتے ہوئے دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ان کے ساتھ بالکل ٹھیک ہو رہا ہے۔ جسے یہ علم نہ ہو کہ مسائل کس وجہ سے ہیں اور کن کی وجہ سے ہیں، ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔
ان لوگوں نے کبھی اپنے شہر کو نہیں ناپا کہ اس کا رقبہ کتنا ہوچکا ہے۔ نہ یہ سوچتے ہیں کہ کہاں کہاں کی مخلوق بے حد و حساب آن بیٹھی ہے۔ نہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس میں کون کون سی مافیاوں نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ نہ یہ پوچھتے ہیں کہ اس اونٹ کی داڑھ کے لیے وفاق زیرہ بھی کیوں نہیں فراہم کرتا۔
باقی رہا میڈیا تو اس کا مسئلہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ ریٹنگ میٹر کراچی میں لگے ہیں۔ بلوچستان، گلگت بلتستان اور فاٹا میں قیامت بھی آجائے تو کوئی خاص کوریج نہیں ہوگی۔ کراچی میں افواہ بھی اڑ جائے تو میڈیا میں قیامت برپا ہوجائے گی۔ کئی شہروں میں بڑے میڈیا گروپس کا ایک بھی نمائندہ نہیں۔ کراچی میں بیس بیس رپورٹر ہیں اور ہر رپورٹر آپ کو کسی نئے اینگل سے منفی خبر تلاش کرتا ہوا ملے گا۔
حرف آخر یہ کہ جس شہر میں سپریم کورٹ رجسٹری تک نالے پر کھڑی ہو، وہاں پانی جمع ہونے کی شکایت ایک تہائی شہر پر اختیار والے مئیر سے کرنا بڑی نادانی ہے۔ باقی دو تہائی شہر پر کس کا اختیار ہے، اس سوال کا جواب آپ کو جناح کورٹ سے مل سکتا ہے جس کے سامنے چار فٹ پانی جمع ہے۔

