Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Ancholi Ke Tasveeb Sahab

Ancholi Ke Tasveeb Sahab

انچولی کے تصویب صاحب

انچولی کی ایک گلی کا قصہ لکھ رہا ہوں تو چوتھا صفحہ ہے اور تحریر نہیں سمٹ رہی۔ کوئی پوری انچولی کا ذکر لے کر بیٹھے تو کتنے مہینے لگیں گے۔

اس گلی میں دو خوش نویس رہتے تھے۔ میں نے دونوں کا کام دیکھا اور قائل ہوا۔ میں کیا، ایک دنیا قائل ہوئی۔ جس لائن میں طہیر نفسی صاحب کا کارنر والا مکان تھا، اس کے دوسرے کونے پر تصویب صاحب رہتے تھے۔ وہ روزنامہ جنگ کی شہ سرخی لکھتے تھے۔ جنگ سے ریٹائر ہوئے تو اخبار جہاں کا کام سنبھال لیا۔ آخر تک وہیں کام کیا۔

اگر مجھے ٹھیک یاد ہے تو ان کے چار بیٹے ہیں۔ ایک بیٹے کا امریکا کی گرین کارڈ لاٹری میں نام آگیا تھا۔ امریکا روانگی سے عین پہلے اس نے بینک سے پیسے نکلوائے تو ڈاکووں نے پیچھا کیا اور عین گھر کے سامنے لوٹ لیا۔ ایک دو ہوائی فائر بھی کیے۔ میں اس وقت گھر پر تھا۔ فائرنگ کی آواز آئی تو امی نے کہا، یا اللہ خیر، لگتا ہے آج ہماری گلی میں کوئی قتل ہوگیا۔ لیکن شکر ہے کہ نوجوان کو گزند نہیں پہنچی۔ وہ نوجوان اب ہیوسٹن میں رہتا ہے۔ میں کئی سال پہلے ہیوسٹن گیا تو ملاقات ہوئی۔ وہ محرم کے دن تھے۔ معلوم ہوا کہ شیعوں نے ہیوسٹن کو انچولی بنارکھا ہے۔

تصویب صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا حسین جری نوحہ خواں ہے۔ پہلے ہماری انجمن فدائے اہلبیت کا صاحب بیاض تھا۔ اب شاید کوئی اور انجمن بنالی ہے۔ بچپن میں ہم اسے منٹو کہتے تھے۔ لیکن اب اصل نام سے پکارا جاتا ہوگا۔

تصویب صاحب سے تین چار مکان چھوڑ کے محمد حسین کاتب کا مکان تھا۔ میں نے انھیں کام کرتے بھی دیکھا اور فٹبال کھیلتے بھی۔ بوڑھے ہوچکے تھے لیکن نیکر ٹی شرٹ پہن کر میدان میں جاتے اور امروہا فٹبال کلب کے کھلاڑیوں کے ساتھ شام کو کھیلتے۔ اس ٹیم میں بھی کیا کیا کھلاڑی تھے۔ ایک دن میں نے اس بارے میں لکھا تو ایک رشتے دار خفا ہوگئے تھے اور مجھے تحریر ایڈٹ کرنی پڑگئی تھی۔ خیر، وہ ذکر جانے دیں۔

محمد حسین کاتب وہی تھے جنھوں نے خود، یا ان کے بیٹوں نے انچولی شادی کارڈ سینٹر کھولا اور وہ خوب چلا۔ میں نے بھی اپنی شادی کے کارڈ ان سے چھپوائے۔ ان میں سے ایک بھائی کی بیٹی سے میرے رشتے کے بھانجے احسن کی شادی ہوئی۔ وہ بہت خوبصورت نوجوان تھا۔ بدقسمتی سے ابھی چند سال پہلے اس کا گردے کا آپریشن خراب ہوا اور وہ چل بسا۔ بعد میں اس کے سسر کا بھی انتقال ہوگیا۔

تصویب بھائی کے ساتھ والے گھر میں کبھی ڈئیر بھائی رہا کرتے تھے۔ نام کچھ اور تھا لیکن کم عمری میں دل میں بیٹری لگ گئی تھی۔ اس پر انچولی کے لونڈوں نے ڈئیر بیٹری سیل کی رعایت سے انھیں ڈئیر کہنا شروع کردیا۔

میں انچولی کے ناموں پر پہلے بھی کافی کچھ لکھ چکا ہوں۔ ایک مضمون وائرل ہوگیا تھا لیکن کم از کم تین چار مضامین لکھے تھے۔ اس کے باوجود بہت سے نام رہ گئے۔ مثلاََ ایک گلی میں سات آٹھ بھائی رہتے تھے جن میں سب سے چھوٹے کا نام کاشف تھا۔ یاروں نے اس کا نام کھرچن رکھ دیا۔ پتا نہیں آج کل کے بچوں کو کھرچن کا مطلب بھی پتا ہے یا نہیں اور پتا ہے تو یہ سمجھ پائیں گے یا نہیں کہ آخری اولاد کو کھرچن کیوں کہا گیا۔

ڈئیر بھائی بہاری تھے۔ ان کا چھوٹا بھائی اعجاز میرا دوست تھا۔ اسے سب بابو کہتے تھے۔ لیکن ایک بڑے بھائی بھی تھے۔ جن دنوں میں جیو دبئی میں کام کرتا تھا تو وہاں کے ایک بینک سے لون لے کر امی بابا کے لیے ایک فلیٹ خریدا۔ وہ چند مہینے ہی رہ سکے، پھر انچولی واپس آگئے۔ وہ مکان ڈئیر کے بڑے بھائی کو کرائے پر دے دیا۔ جب جیو نے دبئی کا اسٹاف پاکستان منتقل کیا تو میں نے واپس آکر درخواست کی کہ مجھے دبئی کے بینک کا لون واپس کرنا ہے۔ فلیٹ خالی کردیں۔ انھوں نے ایڈوانس واپس مانگا اور پیسے لے کر کہا، مزید پچیس ہزار روپے دو، ورنہ خالی نہیں کروں گا۔ میں سمجھا مذاق کررہے ہیں۔ لیکن جب وہ دھمکی دینے پر اتر آئے تو مجھے اسی طریقے سے فلیٹ خالی کروانا پڑا، جو اچھا نہیں ہوتا۔

انچولی میں بہت سے عجیب عجیب واقعات بھی ہوئے ہیں۔ عجیب ان معنوں میں کہ مڈل کلاس مہاجروں، تہذیب دار شیعوں اور تعلیم یافتہ امروہے والوں کے محلے میں ان کا ہونا تعجب کا سبب تھا۔ مثلاََ اسی گلی سے بیاہ کر جانے والی ایک بہن کے شوہر طلاق دے کر یا شاید طلاق دیے بغیر اسی کی دوسری بہن کے ساتھ رہنے لگے۔ ایسے کارنامے تو امریکا میں بھی نہیں ہوتے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari