Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. America Ki Policiyon Ka Aik Jaiza

America Ki Policiyon Ka Aik Jaiza

امریکا کی پالیسیوں کا ایک جائزہ

پاکستان میں بیشتر لوگ امریکا کو پسند نہیں کرتے۔ یہ ایک عام تاثر ہے۔ اس کی وجوہات کئی ہیں۔ ایک یہ کہ لوگوں کو امریکا کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔ سنی سنائی باتیں ہیں۔ مثلاََ یہ گمان کہ امریکا مسلمانوں کا دشمن ہے۔ یا یہ کہ امریکا پر اصل حکمرانی یہودیوں کی ہے اور وہ اس کی پالیسیاں بناتے ہیں۔ کمیونزم اور سوشلزم کو پسند کرنے والوں کے پاس وجہ ہے کہ امریکا سرمایہ دارانہ نظام کا علم بردار ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر ہے کہ امریکا عالمی معاملات کو اپنی مرضی سے کیوں چلاتا ہے۔ ضمنی طور پر یہ بھی کہ اسرائیل کا پشت پناہ کیوں ہے۔

ان نکات پر ابھی غور کرتے ہیں لیکن پہلے ایک اور غلط فہمی دور کرلیں۔ امریکا میں کسی کا مذہب، نسل، قوم، زبان، رنگ دیکھ کر اسائلم یا گرین کارڈ یا پاسپورٹ نہیں دیا جاتا۔ ان سب کے لیے قوانین ہیں اور جان لیں کہ امریکا میں قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ تعصب کا مظاہرہ کرے تو لوگ فوراََ عدالت چلے جاتے ہیں اور انھیں انصاف ملتا ہے۔ نہ صرف انصاف بلکہ ہرجانے کی رقم بھی۔

امریکا کے ساحل پر اسٹیچو آف لبرٹی یعنی مجسمہ آزادی لگا ہے۔ اس کی پارلیمان کے گنبد پر بھی ایک مجسمہ نصب ہے جس کا نام اسٹیچو آف فریڈم ہے۔ اس کا ترجمہ بھی مجسمہ آزادی ہوگا۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم اظہار کی آزادی دیتی ہے۔ اسی لیے امریکا سے زیادہ دنیا میں کہیں اظہار کی آزادی نہیں۔

اب یہ سمجھنا حماقت ہے کہ میں یا کوئی بھی شخص امریکی پالیسیوں کی اس لیے حمایت کرتا ہے کہ اسے اسائلم یا گرین کارڈ یا نیشنلٹی چاہیے۔ اگر کوئی شخص ان کا حق دار ہے تو مخالفت سے فرق نہیں پڑتا۔ کوئی شخص حق دار نہیں ہے تو حمایت سے فائدہ نہیں ہوگا۔

میں امریکا میں رہتا ہوں لیکن امریکی شہری نہیں ہوں۔ میرے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے۔ میں نے امریکا میں اسائلم نہیں لیا۔ میرے خیالات میرے اپنے ہیں جو غلط ہوسکتے ہیں۔ مجھے ان سے کسی فائدے یا نقصان کا اندیشہ نہیں ہے۔ آپ اگر کسی فائدے یا نقصان کی بنیاد پر خیالات میں ترمیم کرتے ہیں تو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔

آئیں، اب امریکا کی پالیسیوں کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔ یہ گمان غلط ہے کہ امریکا مسلمانوں کا دشمن ہے۔ ایسا ہوتا تو امریکا اپنے ملک میں مسلمانوں پر پابندیاں لگاتا۔ یہاں ہزاروں مساجد اور امام بارگاہ نہ ہوتے۔ جمعہ کے اجتماعات اور محرم کی مجالس نہ ہوتیں۔ مسلمانوں کو اسائلم، گرین کارڈ اور شہریت نہ دی جاتی۔

یہ سمجھنا کہ یہودی امریکا کو چلاتے ہیں، تھوڑی سی نادانی ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ اسرائیلیوں کو بھی امریکا سے ویسی ہی شکایات ہیں جیسی پاکستانیوں کو ہیں۔ وہ امریکا کو دوست تو مانتے ہیں لیکن شکوہ کرتے ہیں کہ امریکا اپنی مرضی چلاتا ہے اور ان کی بات نہیں سنتا۔ میں براہ راست اسرائیلی دانشوروں سے گفتگو میں یہ سن چکا ہوں۔

ایک جملہ معترضہ کے طور پر سن لیں کہ امریکا اور اسرائیل معاملات کو کیسے الگ الگ دیکھتے ہیں۔ اسٹیون اسپیل برگ کی ایک فلم کا نام میونخ ہے۔ یہ ان حقیقی واقعات پر مبنی ہے جو میونخ اولمپکس کے بعد پیش آئے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس نے اپنے ایتھلیٹس کو اغوا اور قتل کرنے کی سازش میں ملوث فلسطینیوں کو چن چن کر قتل کیا تھا۔ فلم میں ایک منظر وہ ہے جب اسرائیلی لندن میں فلسطینی کمانڈر علی حسن سلامہ کو قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن چند شرابی اسے بچالیتے ہیں۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ امریکی ایجنٹس تھے۔

اب ہم وہ بات کرتے ہیں جو اصل مدعا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے جذبات کو ایک طرف رکھ کر سیاسیات اور بین الاقوامی امور سے تھوڑی جانکاری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

کوئی محلہ، کوئی شہر، کوئی ملک بلکہ کوئی چھوٹی سی تنظیم بھی بغیر تنظیم کے نہیں چل سکتی۔ ایک آرڈر یعنی نظام چاہیے۔ میں نے قواعد یا قانون نہیں کہا، کیونکہ قوانین بدلتے رہتے ہیں۔ امریکا، چین، سعودی عرب، یہ سب مختلف نظاموں کے تحت چل رہے ہیں۔ لیکن کسی ملک میں کوئی نظام ہی نہ ہو تو کچھ عرصہ پہلے کے افغانستان یا صومالیہ والا حال ہوجاتا ہے۔

اب غور کریں کہ ایک ورلڈ آرڈر قائم ہے۔ اچھا ہے یا برا ہے، پسند ہے یا ناپسند ہے، لیکن اسی سے معاملات چل رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس جیسے عالمی ادارے، مثلاََ آئی اے ای اے اپنی ذمے داریاں انجام دے رہے ہیں۔ آپ عالمی برادری کا حصہ ہیں تو ان کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ نہیں چلیں گے تو پابندیوں کا شکار ہوں گے۔

یہ خیال کرنا درست نہیں کہ ایران یا شمالی کوریا نے مغرب کو چیلنج کرکے کوئی کمال کیا ہے۔ اس کا خمیازہ ان کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ وہ اپنا جو مال عالمی منڈی میں سو ڈالر کا بیچ سکتے ہیں، پابندیوں کی وجہ سے چوری چھپے دس بیس ڈالر میں بیچنے پر مجبور ہیں۔ امریکا کو آنکھیں دکھانے کے لیے چین یا روس سے جو فوجی تعاون حاصل کرتے ہیں، اس کی چار گنا قیمت ادا کرتے ہیں۔

سوپرپاور امریکا ہو یا چین بن جائے، اس پر ورلڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اسے اپنی جیب سے پیسہ لگا کر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ مثلاََ بحری تجارت کا فائدہ صرف امریکا کو نہیں، تمام ملکوں کو ہوتا ہے۔ لیکن امریکی بحری بیڑے سمندروں کو خالی چھوڑ دیں تو جگہ جگہ قزاقوں کی حکومت قائم ہوجائے۔ صرف ایک صومالیہ کو خالی چھوڑا تھا تو کیا نتیجہ نکلا؟

سوپرپاور طاقت آسمان سے نہیں اترتی۔ اس طاقت کو حاصل کرنا پڑتا ہے۔ لیکن طاقت جس کے پاس بھی ہو، اس سے غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ ناپسندیدہ کام کر بیٹھتا ہے۔ نقصان اٹھاتا ہے۔ لیکن نقصانات اس کے اپنے یا چند دشمنوں کے ہوتے ہیں۔ باقی ساری دنیا کو فائدے ملتے ہیں۔

ورلڈ آرڈر یہ ہے کہ پانچ سات ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ بھی اپنے ہتھیار تلف کردیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو مزید کسی ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ پرانی بندوقیں نہیں چھینی جاسکتیں تو نئی بندوقیں بنانے پر ضرور پابندی ہونی چاہیے۔

آج امریکا پیچھے ہٹ جائے اور کل ہر دوسرا ملک ایٹمی ہتھیار بنالے تو سوچیں، کیا انجام ہوگا؟ کیا آپ کے پڑوسی افغانستان کے پاس اتنی عقل ہے کہ وہ انھیں سنبھال سکے؟ کیا آپ کسی خودکش ایٹمی دھماکے کے خواہش مند ہیں؟

میں ایک بار پھر یاد دلانا چاہتا ہوں کہ خدکش دھماکوں کا آغاز ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ نے کیا تھا۔ فلسطینی تنظیموں کی تربیت انھوں نے کی۔ پیسہ ایران نے فراہم کیا۔ کیا آپ اس ایران پر اعتبار کرنا چاہتے ہیں؟

ابھی دوسری جنگ عظیم تک امریکا عالمی معاملات سے لاتعلق رہنا پسند کرتا تھا۔ آپ اس دور کا حال پڑھیں۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس لاتعلقی سے امریکی ترقی رک نہیں گئی تھی۔ سائنسی ایجادات تب بھی ہورہی تھیں۔ نوبیل انعام جیتے جارہے تھے۔ معیشت آج کے مقابلے میں سو گنا بہتر تھی۔ شاندار ادب تخلیق کیا جارہا تھا۔ بلکہ جغرافیے میں بھی بڑا اضافہ ہوتا رہا۔

تب برطانیہ سوپرپاور تھا۔ اس کی ہمت ٹوٹی تو اس نے امریکیوں کو آگے کردیا۔ امریکا ایک بار پھر عالمی امور سے لاتعلق ہوسکتا ہے۔ اس سے معیشت بہتر ہوگی۔ فوجی طاقت میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اس کی فلموں کی مقبولیت متاثر نہیں ہوگی۔ امریکی ویزے کے خواہش مند نہیں گھٹیں گے۔

پھر چین کو آگے آنا پڑے گا۔ اس سے امریکا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن آپ کو پڑے گا۔ مشرق وسطی پر فرق پڑے گا۔ یورپ پر فرق پڑے گا۔ عالمی تجارت اور معیشت پر فرق پڑے گا۔

کیا اسرائیل کو فرق پڑے گا؟ یہ جاننے کے لیے معلوم کریں کہ چین اور اسرائیل کے تعلقات کیسے ہیں۔ ان کا باہمی تعاون کس قدر ہے۔ ان کی تجارت کا حجم کتنا ہے۔ اس معلومات سے ممکن ہے کہ آپ کے خیالات میں کچھ تبدیلی آئے۔

Check Also

Kya Siasat Ideology Nahi?

By Komal Shahzadi