Aeen Baladast Ya Parliman
آئین بالادست یا پارلیمان
پاکستان کے مقتدر اور سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں بھی ایک بحث بار بار ہوتی ہے کہ آئین بالادست ہے یا پارلیمان۔ یہ مباحثہ عدالتوں تک پہنچتا ہے اور ہر جج اپنی مرضی کی تشریح کرتا ہے۔
میں ایک عام آدمی ہوں اور ملک کے عظیم سیاست دانوں، ماہرین آئین و قانون اور صحافتی دانشوروں کے دلائل سن کر الجھ جاتا ہوں۔ کبھی دل کہتا ہے کہ آئین کو سپریم ہونا چاہیے اور کبھی خیال آتا ہے کہ پارلیمان کے پاس حتمی اختیار ہونا چاہیے۔
امریکا آکر ایک عجیب بات معلوم ہوئی کہ یہاں اسکول میں امیگرنٹ بچوں کو دو کورس پڑھانے پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ایک انگریزی زبان اور دوسرے حکومت۔ اس کورس کا نام حکومت ہے، لیکن آپ پولیٹیکل سائنس سمجھیں۔
ظاہر ہے کہ یہ کورس امریکی بچوں کو بھی ابتدائی کلاسوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
اس کی پہلی کتاب کے پہلے صفحے پر دو خاص باتیں بتائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت کی بہت سی ذمے داریوں میں سے تین بنیادی کام یہ ہیں: شہریوں کا تحفظ، انھیں سہولتیں فراہم کرنا اور ان کے لیے قوانین بنانا۔
یاد رہے کہ ہمارے ہاں جسے حکومت سمجھا جاتا ہے، اسے امریکا میں انتظامیہ کہتے ہیں۔ حکومت میں کانگریس [ہماری پارلیمان] اور سپریم کورٹ شامل ہوتے ہیں۔ انھیں حکومت کے تین ستون کہا جاتا ہے۔
اس کورس کی اولین کتاب کی ابتدا میں دوسری بات یہ بتائی جاتی ہے کہ حکومتیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ جن میں سے خاص اقسام چار ہیں: ڈیماکریسی، ری پبلک، مونارکی اور ڈکٹیٹرشپ۔
برطانیہ میں مونارکی ہے اور شمالی کوریا میں ڈکٹیٹرشپ۔
امریکا ایک ری پبلک ہے، جہاں آئین بالادست ہے۔ یہاں کانگریس یعنی پارلیمان بالادست نہیں۔ وہ آئین میں ترمیم کرسکتی ہے اور کرتی ہے۔ لیکن بنیادی نکات کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ انتظامیہ اسی کو ملے گی، جس کے پاس زیادہ ووٹ ہوں گے، لیکن وہ آئین سے ہٹ کر نہیں چل سکتا۔
ہندوستان ایک ڈیماکریسی ہے، جہاں عوام کی اکثریت یعنی پارلیمان بالادست ہے۔ جمہوریت میں اکثریت کی مرضی کے مطابق حکومت کی جاتی ہے اور جس درجے تک بھی وہ چاہیں، آئین اور قوانین تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔
ری پبلک اور ڈیماکریسی کا فرق بیشتر لوگ نہیں سمجھتے۔ دنیا کے ایک سو ساٹھ ملکوں کے نام میں ری پبلک شامل ہے لیکن ان میں سے ایک تہائی بھی ری پبلک نہیں۔ میری طرح کا عام آدمی اس باریکی میں الجھ سکتا ہے۔ لیکن قانون سازوں اور ماہرین قانون کو اس فرق کا علم ہونا چاہیے اور اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے عوام کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے۔