A Friend Of Napoleon
اے فرینڈ آف نپولین
پیرس میں مومی مجسموں کے عجائب گھر میں پاپا چیبو پچیس سال سے ملازم تھا۔ وہ اپنے کام سے بہت خوش تھا اور مومی مجسموں سے ایسے باتیں کرتا تھا جیسے وہ زندہ انسان ہوں۔ ان میں نپولین کا مجسمہ بھی تھا جس کا قد اصلی نپولین سے بھی چھوٹا تھا۔ اس کا ایک کان اسٹیم ریڈی ایٹر کی زد میں آنے کی وجہ سے پگھل گیا تھا۔ یہی مجسمہ پاپا چیبو کا سب سے گہرا دوست تھا۔
عجائب گھر میں روز بہت سے سیاح آتے۔ رات کو وقت ختم ہونے کے بعد پاپا چیبو نپولین کو بتاتا کہ دن میں کون کون آیا اور کیا کیا واقعے پیش آئے۔ اس دوران ایک لو اسٹوری شروع ہوگئی۔ ایک فرانسیسی نوجوان اور امریکی لڑکی عجائب گھر آتے اور ایک کونے میں بیٹھ کر محبت کی باتیں کرتے۔ رات کو پاپا چیبو نپولین کو بتاتا کہ لڑکا غریب ہے اور لڑکی کی خالا اس کی شادی کہیں اور کرنا چاہتی ہے۔
ایک دن نوجوان نے لڑکی سے کہا کہ وہ اسے کل تک بتادے کہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے یا نہیں۔ اگلے دن وہ عجائب گھر میں انتظار کرتا رہا لیکن لڑکی نہیں آئی۔ رات کو پاپا چیبو نے دکھ بھرے لہجے میں نپولین کو یہ کہانی سنائی۔
لیکن اگلے دن لڑکی آگئی۔ نوجوان مایوس ہوچکا تھا اس لیے نہیں آیا۔ لڑکی کئی دن تک آتی رہی اور آخر پاپا چیبو کو اپنا کارڈ دے کر رخصت ہوگئی کہ نوجوان آئے تو اس کے حوالے کردے۔
لیکن اس سے پہلے عجائب گھر کے مالک نے کاروبار ختم اور سارے مجسمے نیلام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پاپا چیبو کو بہت افسوس ہوا۔ اپنی ملازمت ختم ہونے سے زیادہ اسے دکھ تھا کہ اس کے دوست آگ میں پگھلا دیے جائیں گے۔ اس نے اپنی جمع پونجی گنی اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سب سے گہرے دوست نپولین کو خریدے گا۔
نیلامی کا دن آیا۔ ایک ایک کرکے تمام مجمسے نیلام ہوگئے۔ نپولین کو سب سے آخر میں کوڑے کباڑ کے ساتھ نیلام کرنے کا اعلان ہوا کیونکہ اس کا ایک کان نہیں تھا اور اس کے اچھے دام نہیں مل سکتے تھے۔ پاپا چیبو کو اس بات پر بھی دکھ ہوا۔ نیلامی شروع ہوئی تو اس نے بھی بولی دی۔ دوسرے مجسمے خریدنے والا بولی بڑھاتا گیا، یہاں تک کہ پاپا چیبو نے اپنی کل رقم، دو سو اکیس فرانک داو پر لگادیے۔ لیکن دو سو پچیس فرانک کی بولی دینے والا جیت گیا۔
اگلی شب پاپا چیبو نے وہ کیا، جس کی اسے خود بھی امید نہیں ہوگی۔ اس نے نپولین کا مجسمہ اٹھایا اور پیرس کی تنگ گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے کرائے کے کمرے میں لے گیا۔ عجائب گھر کے مالک نے پولیس کو اطلاع کی اور پاپا چیبو کو گرفتار کرلیا گیا۔
حوالات کے سنتری نے پاپا چیبو کو بتایا کہ اس کا مقدمہ وہ تین جج سنیں گے جنھیں ٹیریبل ٹرایو کا نام دیا گیا ہے۔ وہ ملزموں کا مذاق اڑاتے ہیں اور سخت ترین سزائیں دیتے ہیں۔ دوسری جانب سرکار نے اسے ایسا وکیل فراہم کیا ہے جس نے مہینوں سے کوئی مقدمہ نہیں جیتا۔
آخر وہ دن آیا۔ پہلا مقدمہ ایک لڑکے کا تھا جس نے ایک سنترہ چوری کیا تھا۔ ججوں نے اسے ایک سال قید کی سزا سنائی۔ پاپا چیبو لرز اٹھا۔ ایک سنترے پر ایک سال قید۔ ایک مجسمہ چوری کرنے کا انجام کیا ہوگا۔
تب اس کا وکیل آیا اور اپنا تعارف کرواکے پوچھا، آپ پر کیا الزام ہے؟ پاپا چیبو اسے دیکھ کر اچھل پڑا۔ اس نے کہا، میرے مقدمے کو چھوڑو نوجوان، تمھارے لیے ایک پیغام ہے۔ وہ امریکی لڑکی اگلے دن عجائب گھر آئی تھی اور تمھارا انتظار کرتی رہی۔ اس نے تمھارے لیے یہ کارڈ دیا تھا۔
نوجوان وکیل کا مایوس چہرہ یکلخت کھل اٹھا۔ وہ جوش میں بھر گیا۔ اس نے کہا، جلدی سے بتائیں، آپ پر کیا الزام ہے؟ پاپا چیبو نے کہا، میں نے عجائب گھر سے نپولین کا مجسمہ چوری کیا تھا۔ وکیل نے پوچھا، کیوں؟ پاپا چیبو نے کہا، بس، وہ میرا سب سے اچھا دوست تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اسے کباڑ میں ڈال دیا جائے۔
اس کے بعد نوجوان وکیل نے، جو شاید کبھی کوئی مقدمہ نہیں جیتا تھا، فرانس کے بدترین ججوں کے سامنے پاپا چیبو کی حب الوطنی پر اور قومی تاریخ کے عظیم رہنما نپولین سے عقیدت کے حق میں شاندار تقریر کی اور دلائل کے انبار لگادیے۔ جج بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے نہ صرف پاپا چیبو کو بری کردیا بلکہ اسے عظیم محب وطن قرار دیتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔ تینوں نے اسے نپولین کا مجسمہ خریدنے کے لیے اپنی جیب سے سو سو فرانک دیے۔
عدالت سے باہر آکر پاپا چیبو نے اپنے وکیل سے پوچھا، نپولین کا پورا نام کیا تھا؟ وکیل نے حیرت سے جواب دیا، بوناپارٹ۔ آپ جانتے ہی ہوں گے۔ پاپا چیبو نے کہا، میں تو چٹا ان پڑھ ہوں۔ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا کہ میرے دوست نپولین نے کتنے بڑے کارنامے انجام دیے تھے۔
نوجوان ششد رہ گیا۔ اس نے پوچھا، تو آپ نپولین کو اب تک کیا سمجھتے تھے؟ پاپا چیبو نے کہا، ایویں ای کوئی چھوٹا موٹا قاتل۔
امریکی ادیب رچرڈ کونیل کی یہ کہانی اے فرینڈ آف نپولین بہت سال پہلے پڑھی تھی۔ کل ڈائریکٹر رڈلے اسکاٹ کی فلم نپولین کا پریمئیر شو دیکھتے ہوئے یاد آئی۔ اس میں نپولین کا کردار واکین فینکس نے نبھایا ہے۔ فلم ایپسٹولری اسٹائل میں ہے یعنی نپولین اور اس کی پہلی بیوی جوزفین کے خطوط کے ذریعے کہانی بیان کی گئی ہے۔ نپولین عظیم سپہ سالار تھا اس لیے کئی جنگیں بھی دکھائی گئی ہیں لیکن اصل کہانی اس کے جوزفین سے عشق پر مبنی ہے۔ جوزفین بھی انوکھا کردار تھی کہ پورا یورپ فتح کرنے والا اس کا دل فتح نہ کرسکا۔ نپولین کے عروج پر اس کی ملکہ ہوتے ہوئے وہ نئے نئے عشق لڑاتی رہی اور جسمانی لذتیں حاصل کرتی رہی۔
جوزفین کے پہلے شوہر سے دو بچے تھے لیکن نپولین سے شادی کے وقت اس کی عمر 43 سال ہوچکی تھی۔ نپولین کو اولاد کی خواہش تھی۔ جوزفین بچہ پیدا نہ کرسکی تو اس نے طلاق دے کر آسٹریا کی شہزادی سے شادی کرلی۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ نپولین کی اولاد اب کہیں نہیں جبکہ جوزفین کا پوتا فرانس اور پوتی برازیل کی ملکہ بنی جبکہ اس وقت بھی سویڈن، ڈنمارک، ناروے، بیلجئم اور لکسمبرگ کے شاہی خاندان اس کی اولاد ہیں۔
نپولین کا نام سکندر اعظم، چنگیز خان اور ہٹلر کے ساتھ لیا جاتا ہے کیونکہ انھیں کی طرح اس نے بہت سے ملکوں کو فتح کیا۔ ایک وقت ایسا تھا کہ دو چار ملکوں کو چھوڑ کے پورے یورپ پر اس کا قبضہ تھا اور شمالی افریقا تک اس کی سلطنت پھیلی ہوئی تھی۔ یہ افواہ بھی مشہور ہوئی کہ نپولین نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ سچ یہ ہے کہ نپولین مذہب بیزار تھا۔ اس کی تاج پوشی کے موقع پر پوپ اٹلی سے آیا لیکن نپولین نے اسے زحمت دینے کے بجائے اپنا تاج اٹھاکر خود پہن لیا تھا۔ اہل فرانس ہٹلر کے ساتھ نپولین کا نام لیے جانے پر خفا ہوتے ہیں کیونکہ اپنے عوام کے ساتھ اس کا سلوک اچھا تھا۔ اس نے ملک میں بہت سی اصلاحات کیں۔ وہ اتنا ذہین سپہ سالار تھا کہ آج تک فوجی اسکولوں میں اس کی جنگی حکمت عملی کے باب پڑھائے جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ دنیا پر انگریزی کا سکہ چلتا ہے اور برطانوی ادیب نپولین سے خار رکھتے ہیں، اس لیے ادب اور فلموں میں اکثر اس کا برا عکس پیش کیا جاتا ہے۔ جارج آرویل نے اینمل فارم میں مرکزی کردار والے سور کا نام نپولین رکھا، حالانکہ وہ ناول کمیونسٹوں پر طنزیہ وار تھا اور اسٹالن کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
میں پیرس میں نپولین کا مقبرہ دیکھ چکا ہوں۔ یہ لی زن وا لڈ [انگریزی میں لیس انوالیڈز] نام کے وسیع بلڈنگ کمپلیکس میں ہے جس میں عجائب گھر، گرجا، اسپتال اور مشاہیر کی قبریں، کافی کچھ ہے۔ اس میں نپولین کے زمانے کی توپیں اور جنگی سازوسامان بھی موجود ہے۔ ایک میوزیم میں شیشے کے شو کیسوں میں طرح طرح کے لباس پہنے، ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کے ننھے مجسمے رکھے تھے۔ جس وقت ہم وہاں پہنچے، ایک اسکول کے بچے انھیں دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔ یہ دس سال پرانی بات ہے۔