Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Manzar Abbas
  4. Mojuda Halaat Ka Noha

Mojuda Halaat Ka Noha

موجودہ حالات کا نوحہ

پیارے ملک پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر دل خُون کے آنسو روتا ہے کہ پتہ نہیں ہماری دھرتی ماں کو کس کی نظر لگ گئی ہے لگتا ہے پاکستان ایسے گرداب میں پھنس چکا ہے کہ حالات سدھرنے کی کوئی راہ دور دور تک نظر نہیں آتی۔ پاکستان کو موجودہ حالات تک پہنچانے میں جہاں سیاست دانوں، سرکاری افسران اور زندگی کے ہر شُعبہ ہائے سے وابستہ افراد نے اور بالخصوص عوام نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔

جہاں عوام کی ذہنی سطح اس حد تک پہنچ چُکی ہو کہ اپنا قیمتی ووٹ فلاں بندے کو اس بنیاد پر دیتے ہیں کہ جی یہ بندہ ہماری ہر غمی، خُوشی میں شریک ہوتا ہے۔ چاہے وہ کتنا ہی نااہل، نالائق ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے عوامی نمائندوں نے نہ ہی علاقے کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ کرنا ہوتا ہے اور نہ ملک کے لیے کوئی گراں قدر خدمات انجام دینی ہوتی ہیں۔ بلکہ ایسے عوامی نمائندے ملکی خزانے پر بار دوش ثابت ہوتے ہیں۔

عوام کی فکری سوچ کا یہ عالم ہے کہ پچھلے دنوں میرا اپنے چچا کے ساتھ جو کہ ریٹائرڈ نائب تحصیل دار ہیں جنہیں عدالت نے زمین کی تقسیم کے سلسلے میں Local Commission مقرر کیا تھا کے ساتھ موقعہ پر جانے کا اتفاق ہوا، تاکہ دونوں فریقوں کا مؤقف سنا جائے، موقعہ ملاحظہ کیا جائے اور اپنی رپورٹ حُسن وقبح کے سنہری اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرتب کی جائے۔ فاضل جج صاحب کو حقیقت حال سے آگاہ کیا جائے۔ دونوں فریقوں نے اپنے اپنے ذرائع کو بُروئے کار لاتے ہوئے میرے چچا سے رابطہ کیا اور کہا کہ جی کچھ بھی ہو جائے آپ نے اپنی رپورٹ میرٹ پر کرنی ہے جس کی بھی ہو اُسی کے حق میں لکھنی ہے۔

اب یہاں یہ سوال تو بنتا ہے کہ جب دونوں فریق میرٹ پر ہیں تو ان میں جھوٹا کون ہے اور سچا کون؟ خیر میرے چچا نے کسی کے دباؤ میں نہ آتے ہوئے دونوں فریقوں کو باور کروایا کہ میرا فیصلہ میرٹ پر ہی ہوگا۔ جب موقعہ پر پہنچنا ہوا تو ایک تیسرا فریق جس کا اس تنازعہ سے دور دور کا تعلق بھی نہیں بنتا تھا۔ دوسرے فریق سے جھگڑنا شروع ہوا بڑی مُشکل سے سماعت شروع ہوئی اور نہایت ہی مشکل سے کاروائی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

محکمہ ریونیو کا یہ عالم ہے کہ ایک معتبر بندے نے ایک بات بتائی جسے سُن کر سوچنے پر مجبور ہوا کہ انگریز کے قانون کا کیا مذاق بنایا ہوا ہے ہمارے محکموں نے۔ اُس معزز بندے نے بتایا کہ اِدھر ایک ایسا پٹواری بھی ہے جو چھ ماہ سے تو ریٹائرڈ ہے پیسہ لے کر گزشتہ تاریخیں درج کرکے رپورٹیں جاری کر رہا ہے۔ پتا نہیں اتنی دولت کا کیا کریں گے اور کہاں لے گے جائیں گے۔ حالاں کہ اگر سمجھ آ جائے کہ "کہ زندگی ایک سفر ہے نہ کہ منزل ہے"۔ جہاں ہمیں اپنی منزل کی فکر کرنی چاہئیے ہم سفر کے لیے متفکر ہیں۔ حالاں کہ سفر تو کم سے بھی کٹ جاتا ہے جب کہ منزل ہی حقیقی ٹھکانہ ہے۔

یہ مجھے پتا اس دن لگا کہ کتنا مُشکل ہوتا ہے

"دو جھوٹوں میں سے ایک سچ تلاش کرنا"

زمیں کے اس ایک ٹکڑے کے لیے عوام کسی کو بھی مارنے، دھمکانے، قتل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ جب کہ یہی زمین ہر پچاس سال بعد اپنا مالک تبدیل کرتی ہے۔ زمین کا ٹکڑہ دارِفنا میں ہی رہ جاتا ہے جب مقررہ دن بندہ دارِبقا کی طرف کُوچ کر جاتا ہے۔ مملکت پاکستان میں عوام کے حالات دگرگوں ہیں حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں میں مصروف عمل ہیں۔ ہر شہری پریشانی کے عالم میں ہے کہ مملکت پاکستان کس سمت میں جا رہا ہے۔

جنہوں نے مملکت پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نظرانہ دیا اگر زندہ ہوجائیں اور حالات کا نظارہ کریں تو ان کا دل دوبارہ مرنے کو چاہے گا۔ عوامی سطح پر بھی اچھی سوچ کا فُقدان پایا جاتا ہے ایک دوسرے کو ذلیل کرنا، تمسخر اُڑانا، اذیت پہنچانا فرضِ اولین سمجھا جاتا ہے ہمارے شہروں کی حالت بھی عجیب ہے گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں آبادی بے تحاشہ اور بغیر منصوبہ بندی کے بڑھ رہی ہے اور متعلقہ حکام جیسے ستو پی کے سو رہے ہیں۔

آج تک وقت کی پابندی ہی عوام نہیں کر سکی کسی تقریب میں جانا ہو تو تاخیر سے جانا ہے اور دیر تک براجمان رہنا ہے۔ ہمارا تاجران طبقہ دیر سے بازار کھولتا ہے اور رات گئے تک بازار کُھلے رہتے ہیں جس سے نہ صرف ضیاع طاقت ہوتا ہے بلکہ مختلف بیماریاں بھی حملہ آور ہوتی ہیں۔ پورپین مملک جانا تو نہیں ہوا لیکن سنتے ہے کہ وہاں مارکیٹیں صبح سویرے کُھل جاتی ہیں اور شام کو سات بجے بند ہو جاتی ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر قوم میں کمی کیا ہے کہ ایسے ایسے نالائق حکمران ہمارے مقدر میں لکھ دئیے گئے کہ جنہیں دیکھ کر دوسری اقوام ہنسنے پر مجبور ہوں۔

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed