Saddu Aur G20 Ka Logo
سدو اورجی ٹوئنٹی کا لوگو
سعودی عرب اس سال (G-20) جی ٹوینٹی ممالک کی سربراہی کررہا ہے، سال سنہء 2020 میں جی 20 کا لوگو بھی ایسی آرائشی شکل کا تھا جو "السدو" کی عکاسی کرتا تھا۔ سعودی عرب کی سربراہی کا جی ٹوئنٹی (G-20) کا لوگو، (Logo) جو اب اس کی پہچان بھی ہے، اس کا تصور مقامی سعودی فنکار محمد الحواس نے تخلیق کیا ہے۔ یہ جی ٹوینٹی 20-G کا لوگو، سعودی عرب کی تاریخ اور تہذیب کے علاوہ مہمان نوازی کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ انتہائی سادہ مگر پر معنی لوگو، میں اوپر رنگین پٹی ہے جسے مقامی زبان میں سدو کہا جاتا ہے۔ سدو کے نیچے جی 20 اور پھر سعودی عرب لکھا ہے۔
جزیرہ عرب کی مشہور روایتی دستکاری سدو، کا قومی ثقافتی ورثے کے طور پر یونسکو میں اندراج بھی ہوچکا ہے۔ اسے سعودی عرب اور کویت کی کوششوں نے یونیسکو میں سدو کو ثقافتی ورثہ اور فن قرار دیا ہے۔ سدو کھڈی پر کپڑا تیار کرنے کا ثقافتی عنصر اور ایک تخلیقی روایتی دستکاری فنون میں ایک فن ہے جو جزیرہ نما عرب کے باشندوں کے ہاں صدیوں سے مقبول چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ جدید صنعت نے اس فن کومتاثر کیا ہے مگر عرب دنیا میں ثقافتی ورثے کے طور پر یہ فن آج بھی زندہ ہے۔
سدو دراصل وہ سخت کپڑا ہے جس سے بدو خیمے بنایا کرتے تھے اور اسے فرش پر بچھایا کرتے تھے۔ جزیرہ عرب میں عام طور پر اسی رنگین کپڑے سے خیمے بنائے جاتے تھے۔ یونسکو میں اس کا انسانی تہذیبی ورثے کے طور پر اندراج کیا جا چکا ہے۔ جی ٹوینٹی G-20 کا لوگو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب اپنی روایات اور ثقافتی و تہذیبی ورثے کو عزیز رکھتے ہوئے مستقبل کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ سدو کے کپڑے میں رنگوں کا امتزاج تمام ممالک کے اتحاد و اتفاق کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ جی ٹوینٹی G-20 کے لوگو میں سدو کے کپڑے کا انتخاب مہمان نوازی اور ایثار کی علامت ہے۔
لکڑی کے دستی تکلوں پر تیار کردہ، مضبوطی سے کاتے گئے سرخ، سیاہ اور سفید سوت، سعودی عرب میں کھڈی پر کپڑا تیار کرنے کی قدیم ترین روایات میں سے ایک ہے جو معاشرتی زندگی کا اہم پہلو ہے۔ اس روایتی کپڑےکو سدو کہا جاتا ہے اس کی بنائی مملکت کی قدیم قبائلی دستکاریوں میں سے ایک ہے۔ صحرائی ماحول سے متاثر جزیرہ نمائے عرب کی بدو خواتین نسل در نسل صحرا کے حالات اور دستیاب خام مال مثلاً بھیڑ کی اون یا اونٹ کے بالوں کو استعمال میں لا کر اشیا تیار کرتی رہی ہیں جن میں مختلف رنگوں اور نمونوں والے خیمے، قالین، چٹائیاں شامل ہیں۔
سدو ایسی دستکاری ہے جس کے لئے اختراعی مہارت اور سخت کوشش درکار ہوتی ہے، اس دستکاری کے لیے خام مال کو ایک نئی شے میں منتقل کرنے کے لئے بہت محنت کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی پیچیدہ دستکاری ہے جس میں ہاتھوں کی انتہائی درست حرکت درکار ہوتی ہے اور تیار ہونے والی مصنوعات ہمیشہ انتہائی خوبصورت ڈیزائن کی حامل ہوتی ہے۔ یہ دستکاری زیادہ تر مملکت کے وسطی اور شمالی صحرائی خطوں اور کویت میں پائی جاتی ہے۔ جسے حال ہی میں یونیسکوکے غیر منقولہ ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیاہے۔
ماضی میں سدو کا نمونہ تخلیق کرنے کے لئے اس سے وابستہ لوگوں کو مہارت کے ساتھ کئی مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ سب سے پہلے جانور کے بال مونڈنے کے بعد انہیں ہلانے اور کنگھی کرنے سے قبل صاف کیا جاتا تھا، اس کے بعد انہیں انار کی جلد اور درخت کی چھال سے نکالے گئے رنگ سے رنگاجاتا، اور آخر کار چرخے پر لپیٹ دیا جاتا اور کھجور کے درختوں سے بنائی گئی لوم یہاں کے بدو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ اس ثقافت کو بطور پیشہ اپنانے والے اکثر آباد ہونے کے لئے آبی نخلستان کی تلاش میں صحراؤں میں گھومتے تھے تاہم گزرتے وقت اور جدید ترقی کے ساتھ کئی خاندان آباد ہو گئے مگر اس روایت کو زندہ رکھا۔
سعودی حکمران شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے قومی ورثے کے تحفظ، اسے عالمی سطح پر تسلیم کرانے اور قومی ثقافتی شناخت کے لیے ان کی کوششوں، علاقائی اور عالمی سطح پر رویتی فنون کو اجاگر کرنے کی اہمیت کا ثبوت ہے کہ عرب ثقافت و دستکاری کے لئے مخصوص سماجی ادارے "اتھرنا"میں مطالعے و تحقیق کے شعبے میں "السدو"، اون، بال یا پشم کا سوت فرشی لوم پر افقی طور پر بچھا کر بنایا جاتا ہے تاکہ اسے ایسی مختلف شکلوں اور رنگوں میں تیار کیا جا سکے جو دیہی علاقوں میں بدو کمیونٹی کی روز مرہ ضروریات کے مطابق ہوں۔
سعودی فیشن ڈیزائنر اور ملبوسات کے برانڈ"ہندمی" کے بانی محمد خوجہ نے اپنی ایک کلیکشن میں سدو کے نمونے استعمال کئے۔ وہ سدو بافی کو سعودی عرب کی معاشرت کا گوہرِ ثقافت قرار دیا ہے، ان کا تعلق الاحساسے تھا جس سے یہ بہت متاثر ہیں، انہوں نے اپنے اجداد کے پس منظرکو تلاش کر کے اسے اپنے ڈیزائنز میں شامل کیا۔ خوجہ کاکہنا ہے کہ میری والدہ کا آبائی شہر الاحسا تاریخ اور ورثے کے حوالے سے مالا مال ہے۔ میں ورثے کے مختلف عناصر کے بارے میں تجسس میں رہتا اورمعلومات حاصل کرنے میں مگن رہتا۔
سدو کے نمونے سعودیوں کے لئے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ سدو میں ہر نمونہ یا ہر علامت ابتدائی عرب اور بدوؤں کی زندگی کے عنصر کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسے ایک مرتبہ عالمی سامعین کے ساتھ شیئر کردیا جائے تو اس کی شہرت میں اضافہ ہوگا۔ محمد خوجہ نے دیگر ڈیزائنرز سے بھی کہا کہ وہ سدو ڈیزائن کے استعمال پر غور کریں ہمیں یہ ثقافتی گوہر میسر ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس کا استعمال ہماری دلچسپی کو ہمارے ڈیزائن میں ابھاردے گا اور ہماری ثقافتی اور ڈیزائن کی شناخت کو ایک شکل دے گا۔
سدو دستکاری کی جانب خصوصی توجہ میں گزشتہ دو دہائیوں سے خاصا اضافہ ہوتا رہا ہے۔ کئی سعودی نجی تنظیمیں اور مراکز "سدو" مصنوعات کی تیاری سے متعلق تربیتی کورسز بھی کراتی ہیں۔ اور اب اس کی تیاری میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ دستکاروں کو ڈیزائنرز کی جانب سے تربیت فراہم کی جانی چاہئے جو انہیں بتائیں کہ کمیونٹی اور سیاحوں کو راغب کرنے کے لئے سدو مصنوعات کو جدید کیسے بنایا جائے، جی ٹوینٹی G-20 کا لوگو بھی یہی کپڑا تھا جس میں یہ بات ظاہر کی گئی کہ سعودی عرب اپنی روایات اور ثقافتی و تہذیبی ورثے کو عزیز رکھتے ہوئے مستقبل کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔