Aaj To Be Sabab Udaas Hai Ji
آج تو بے سبب اداس ہے جی
مجھے لگتا ہے کہ کچھ دکھوں کا مداوا ہم کھبی نہیں کر سکتے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دکھ گہرے اور ناسور بن جاتے ہیں۔ جو وقت نو ہمیں ازیت سے دوچار کرتے ہیں۔ کیا دکھ بھی چھوٹے یا بڑے، کم یا زیادہ ہوتے ہیں؟ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مرگ کے موقع پر بھی دکھوں کا ناپ تول کر رہے ہوتے ہیں۔ کسے زیادہ غم ہے کسے کم، کیا غم کو ماپنے کا یہ پیمانہ ہے کہ کون دھارے مار مار کر رو رہا ہے۔
چیخ وپکار کر رہا ہے اور کون ایک کونے میں بیٹھ کر چپ چاپ اپنا سوگ منا رہا ہے۔ ہم کسی کے دکھ کا اندازہ نہیں کر سکتے، جب تک کہ ہم خود کسی عذاب سے نا گزریں، کسی بھی نقصان کا سوگ صرف اس لمحے یا اس کے بعد کے 40 دنوں تک نہیں ہوتا ہے۔ غم کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ ہر لمحہ، چھوٹا ہو یا بڑا، خوشی ہو یا غم، نقصان کا ایک نیا چشمہ نکالتا ہے۔
لیکن پھر ہم اپنے آنسو خشک کرنے، ایک اضافی سانس لینے، اور اپنے بے پناہ درد کو ایک طرف رکھ کر ایک بہادر چہرہ رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی کا نام زندگی ہے، آج سے چھ سال قبل جب والد صاحب کا انتقال ہوا، ایسے بے شمار لمحات تھے جب میں نے ان کی غیر موجودگی کو محسوس کیا اور میرا دل غم سے بھر گیا۔ غم کبھی بھی ایسی چیز نہیں ہے، جس پر آپ قابو پاتے ہیں۔ آپ ایک صبح اٹھ کر نہیں کہتے، میں نے اس پر فتح حاصل کر لی ہے۔
اب میں آگے بڑھ رہا ہوں۔ یہ ایسی چیز ہے، جو ہر روز آپ کے ساتھ چلتی ہے۔ لیکن بعض اوقات ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ان جذبات کو الفاظ میں کیسے بیان کیا جائے۔ زندگی میں کچھ لمحات کے لیے الفاظ نہیں ہوتے۔ غم ایسی چیز نہیں ہے، جسے ہم الفاظ کے ذریعے بیان کر سکیں۔ درست کہا جاتا ہے کہ "جس پے گزرتی ہے، وہی جانتا ہے، یار دل تسلیوں سے کہاں مانتا ہے" بعذاوقات ہم خود بھی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ہماری کیا کیفیت ہے۔
جذبات کا مرکب، خوشی اور اداسی، کسی بھی کامیابی کے موقع پر جب ہر کوئی مجھے مبارکباد دیتا ہے، لیکن حوصلہ افزائی کی واحد آواز جو میں سننا چاہتا ہوں اس وقت وہاں نہیں ہوتی۔ زندگی میں میں نے جب بھی کچھ حاصل کیا، ہر اس موقع پر میں نے والد صاحب کی موجودگی کو محسوس کیا اور اس نے آپ کی غیر موجودگی کی یاد بھی دلائی۔ اپنوں کو کھونے کا نقصان بہت بڑا خلا ہے، جو کبھی پر نہیں ہو سکتا۔
دنیا کا سب سے مشکل کام اپنے پیاروں سے بچھڑنا ہے اور اس دکھ کو اپنے دل میں دفن کر کے زندگی گزارنا ہے۔ وہ جن کے ساے میں ہم پروان چڑھتے ہیں۔ جو ہمیں اس معاشرے میں رہنے کے قابل بناتے ہیں، وہ جو ہمارے حقیقی خیرخواہ ہیں۔ موت کی حقیقت جب انہیں ہم سے چھین کر لے جاتی ہے تو ہم اس دنیا کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بچھڑنے وانے دراصل ہم سے کبھی دور نہیں جاتے۔
وہ ہر قدم پر ہمارے ساتھ رہتے ہیں، بس یہ انسان کی آنکھ اس کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ آخر میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ کہ بچھڑنے والے نظروں سے تو چلے گئے، لیکن دل سے کبھی نہیں گئے۔ آج کچھ بچھڑوں کی یادوں نے مجھے پھر سے یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج تو بے سبب اداس ہے جی۔