Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Malik Zafar Iqbal
  4. Simt Ki Talash Magar Kab Tak?

Simt Ki Talash Magar Kab Tak?

سمت کی تلاش مگر کب تک؟

پاکستان کو پچھلے 75 سالوں سے ایک چوراہے پر کھڑا کیا ہوا ہے جب جمہوریت کا تیز جھونکا آیا چوراہے پر کھڑے پاکستان کی عوام کا مستقبل دوڑنے لگا جس کی نہ سمت نہ منزل بس کاغذی کاروائی میں منزلوں کی نوید اور مستقبل کی منصوبہ بندی۔ آخر کب تک؟ کیا ہم سب اندھے ہیں یا آنکھوں پر پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔ ایسا بلکل نہیں ہم مچلے ضرور ہیں دیکھ کر منہ پھیر کر چلتے جارہے ہیں مگر کب تک ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں ترقی کی خبریں صرف اعداد و شمار کی حد تک محدود ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم آج بھی ایک چوراہے پر کھڑے ہیں، جہاں نہ سمت کا تعین ہے، نہ منزل کی نشاندہی اور نہ ہی مستقبل کی کوئی جامع منصوبہ بندی۔ یہ تحریر ایک اجتماعی اضطراب، ایک قومی الجھن اور ایک مسلسل تعطل کی عکاسی ہے۔ آخر کب تک؟

چوراہے پر کھڑی قوم پاکستان کی 75سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو ایک واضح پیغام سامنے آتا ہے: ہم ہر دہائی کے اختتام پر کسی نہ کسی چوراہے پر کھڑے پائے جاتے ہیں۔ چاہے وہ جمہوریت اور آمریت کے بیچ کی کشمکش ہو، مذہب اور سیکولرزم کی الجھن، یا معیشت اور کرپشن کی دلدل، ہر بار ہم یہ سوال دہراتے ہیں: اب کیا ہوگا؟ مگر کب تک؟

ہم نے کبھی یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ "کیوں بار بار ایسا ہوتا ہے؟"

سمت کا دھندلا پن ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے بلکہ ہمارے مستقبل کا کھلواڑ ہے۔ مگر کب تک، نہ تعلیمی پالیسی کا تسلسل ہے، نہ خارجہ پالیسی میں اصولی استقامت ہے ہر حکومت اپنی ترجیحات اور مفادات کے مطابق قومی سمت کا تعین کرتی ہے۔ ہم نے کبھی ایک قوم بن کر طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں کی، بلکہ ہمیشہ قلیل مدتی، وقتی اور سطحی فیصلوں پر اکتفا کیا۔

منصوبہ بندی کی عدم موجودگی آج دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی ہم آج بھی سیاسی کشمکش کی ترقی کو پروان چڑھانے کے عمل کو ترقی کا پہیہ سمجھ کر چل رہے ہیں مگر کب تک۔ جبکہ ہم بنیادی تعلیم، صاف پانی اور سستی بجلی گیس کا بحران، کسانوں کی زبوں حالی جیسے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ وژن 2025، وژن 2030 جیسے پروگرامز محض کاغذی خواب بن کر رہ گئے۔ ان پر عملدرآمد کے کوئی عملی نتائج نظر نہیں آتے۔ اگر منصوبہ بندی ہو بھی تو اس پر عملدرآمد کی نیت اور تسلسل ناپید ہے۔ البتہ عوام کی جیبوں سے ٹیکس ٹیکنالوجی میں کوئی ثانی نہیں مگر کب تک؟

قیادت کی ناکامی ہر بار نیا لیڈر نئے نعروں کے ساتھ آتا ہے: "نیا پاکستان"، "ریاستِ مدینہ"، "ترقی کی راہیں "، مگر ان نعروں کا انجام بھی صرف تقریروں، ٹوئٹس اور سوشل میڈیا مہمات تک محدود رہتا ہے۔ عوام کو مسلسل امیدیں دے کر مایوسی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ مگر کب تک؟

قیادت کا اصل امتحان اس کی مستقبل کی منصوبہ بندی سے عیاں ہوتا ہے، نہ کہ لفظوں اور اشتہارات میں۔

عوامی شعور کا فقدان یہ بھی سچ ہے کہ صرف حکمران ہی قصوروار نہیں، عوام کا کردار بھی کم نہیں۔ ہم نے کبھی اجتماعی سوچ، منصوبہ بندی اور دوراندیشی کو اہمیت نہیں دی۔ ہم ووٹ جذبات میں دیتے ہیں، فیصلے افواہوں کی بنیاد پر کرتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ منزل کیوں نہیں ملی۔

مگر کب تک؟ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک چوراہے پر کھڑے رہیں گے؟ کب تک ہم غیر یقینی صورتحال کے اس دائرے میں الجھے رہیں گے؟ کب ہم فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کس سمت جانا ہے؟ کب ہم اجتماعی طور پر ایک روڈ میپ ترتیب دیں گے؟

اگر ہم نے اب بھی فیصلہ نہ کیا تو وقت ہمیں پیچھے دھکیل دے گا۔ دنیا آگے نکل چکی ہے، ہمیں اب چوراہے سے نکل کر منزل کی سمت کا تعین کرنا ہوگا اور آگے بڑھنا ہوگا۔ ورنہ ہم آنے والی نسلوں کو صرف سوالات، انتشار اور خالی وعدے دے کر جائیں گے۔ مگر کب تک؟

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari