Sabz Hilali Parcham Talay, Hum Sab Aik Hain
سبز ہلالی پرچم تلے، ہم سب ایک ہیں

"اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں" یہ صرف ایک ملی نغمے کا مصرعہ نہیں، بلکہ ایک عہد ہے، ایک وعدہ ہے جو ہم نے اپنے وطن عزیز پاکستان کے ساتھ کیا ہے۔ یہ وہ نعرہ ہے جو ہمیں قومی دنوں، کھیلوں کے میدانوں، قدرتی آفات، یا کسی قومی بحران کے موقع پر ایک صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس مصرعے کو صرف گنگنانے تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے اپنے عمل، رویے اور کردار کا حصہ بنائیں۔
ہم پاکستانی قوم نے اپنی تاریخ میں کئی بار ثابت کیا ہے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ 2005 کے زلزلے میں، 2010 کے تباہ کن سیلاب میں، 2022 کی بارشوں میں اور ہر قومی آزمائش میں عوام نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما۔ یہ ثبوت ہے کہ جب دلوں میں وطن کی محبت جاگتی ہے تو ہم واقعی ایک قوم بن جاتے ہیں۔ مگر اب ضرورت اس جذبے کو وقتی نہیں بلکہ دائمی بنانے کی ہے، تاکہ ہماری روزمرہ زندگی بھی اسی اتحاد کی آئینہ دار ہو۔
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے۔ اس کی بنیاد رنگ، نسل، یا زبان پر نہیں بلکہ اسلام کے اصولِ مساوات و عدل پر رکھی گئی تھی۔ ہم پنجابی، سندھی، بلوچ، پختون، کشمیری یا گلگتی ہیں، مگر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر پاکستانی ہیں۔ بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنی اصل کو بھلا دیا۔ ذات، زبان اور علاقے کی دیواروں نے ہمیں بانٹ دیا، مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ دیواریں مستقل نہیں اور اگر ہم چاہیں تو انہیں گرایا جا سکتا ہے۔
قومی یکجہتی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب ایک جیسے ہو جائیں، بلکہ یہ کہ ہم اپنی انفرادیت کے ساتھ ایک مقصد کے لیے متحد رہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر پاکستانی کا حق برابر ہے اور کسی ایک طبقے کی خوشی دراصل پوری قوم کی خوشی ہے۔ اختلاف رائے جمہوریت کی علامت ہے، مگر اسے نفرت میں بدل دینا زہر قاتل ہے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ سننا، سمجھنا اور برداشت کرنا ہی ایک مہذب معاشرے کی بنیاد ہے۔
ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ سکھانا ہوگا کہ پاکستان ایک خاندان ہے، جس میں مختلف لہجے، رنگ اور رسم و رواج رکھنے والے لوگ بستے ہیں مگر سب کے دل ایک ہی دھڑکن سے جڑے ہیں۔ تعلیمی ادارے، میڈیا، دینی مراکز اور والدین، سب کو اس قومی شعور کی آبیاری کرنی ہوگی۔ جب ہم چھوٹے مفادات سے نکل کر بڑے قومی مقاصد کی طرف بڑھیں گے تو نہ صرف ایک قوم بنیں گے بلکہ ترقی یافتہ دنیا میں باوقار مقام بھی حاصل کریں گے۔
پاکستان کو قدرت نے بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں، وسائل سے مالا مال ہیں، ہمارے نوجوان تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور ہیں، مگر اگر ہم آج بھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم "پرچم کے سائے تلے" مکمل طور پر متحد نہیں۔ جب دلوں میں تقسیم ہو، تو ترقی کا سفر رُک جاتا ہے۔
قومی یکجہتی صرف ایک جذباتی نعرہ نہیں بلکہ بقا کی شرط ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں ترقی کی راہ پر آگے بڑھتی ہیں جنہوں نے اپنے اندر اتحاد، برداشت اور بھائی چارے کو جگہ دی۔ جب تک ہم خود کو ایک قوم نہیں سمجھیں گے، ہم اقبال اور قائداعظم کے خوابوں کا پاکستان نہیں بنا سکیں گے۔
پاکستان کی پہچان اس کا تنوع ہے، پنجابی، سندھی، بلوچ، پختون، سرائیکی، کشمیری سب ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ یہی تنوع ہماری طاقت ہے اگر ہم اسے مثبت انداز میں اپنائیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اتحاد، ایمان اور تنظیم کو قومی کامیابی کی کنجی قرار دیا۔ ان کے نزدیک سب سے پہلی شناخت "پاکستانی" ہونا تھی۔ مگر آج سیاسی نفرتیں، لسانی تقسیم اور فرقہ واریت نے ہمیں پھر سے بکھیر دیا ہے۔
قومی یکجہتی کا دائرہ صرف صوبائی ہم آہنگی تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں مذہبی، سیاسی اور طبقاتی اتحاد بھی شامل ہونا چاہیے۔ جب تک ہم اپنے دلوں سے نفرت، تعصب اور خودغرضی کو نہیں نکالیں گے، تب تک پاکستان مستحکم نہیں ہو سکتا۔ ہر پاکستانی چاہے وہ امیر ہو یا غریب، شہری ہو یا دیہی، برابر کا حق رکھتا ہے۔
داخلی یکجہتی کے ساتھ ساتھ قومی اتحاد کا اثر بین الاقوامی سطح پر بھی نمایاں ہوتا ہے۔ جب دنیا ایک متحد پاکستان دیکھتی ہے تو وہ ہماری قیادت اور موقف کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ یہی اتحاد ہماری معیشت کو مضبوط، ہماری سفارت کو مؤثر اور ہمارے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بناتا ہے۔ سرمایہ کاری اور ترقی اسی ملک میں ہوتی ہے جہاں امن اور سیاسی استحکام ہو۔
نوجوان نسل کو اس پیغام کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر نفرت نہیں بلکہ محبت پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اختلاف کو دشمنی کے بجائے مکالمے میں بدلنے کا وقت ہے۔ یہی رویے ایک ایسی قیادت کو جنم دیں گے جو علم، اخلاق اور عمل کے ذریعے پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالے گی۔
میڈیا، تعلیمی ادارے، مذہبی رہنما، سیاستدان اور سول سوسائٹی سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عوام میں یہ احساس پیدا کریں کہ "ہم سب ایک ہیں"۔ ہمارا اصل رشتہ اسلام، پاکستان اور انسانیت سے ہے۔ ہمیں لسانی، مسلکی اور گروہی دیواریں گرانا ہوں گی تاکہ ہم صرف ایک لفظ میں جئیں، "پاکستان"۔
قومی ترقی کا خواب اسی وقت حقیقت بنے گا جب ہم خود سے یہ عہد کریں کہ کسی بھی تعصب یا نفرت کو اپنے دل کے قریب نہیں آنے دیں گے۔ ہم ہر سطح پر ثابت کریں گے کہ ہم ایک عظیم، پرامن اور متحد قوم ہیں۔ پاکستان محض ایک سرزمین نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے، ایک امید، ایک خواب۔ وہ خواب جو برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے آزاد اور باوقار زندگی کے لیے دیکھا تھا۔
ہماری سرزمین کی خوبصورتی صرف برف پوش پہاڑوں، زرخیز میدانوں یا نیلگوں سمندروں میں نہیں بلکہ ان دلوں میں ہے جو ایک دوسرے سے جڑے ہوں۔ لیکن آج ہمارا معاشرہ تقسیم کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا پر نفرت، سیاسی مباحثوں میں ذاتیات اور سماجی رویوں میں تعصب در آیا ہے۔ یہ سب ہمیں اندر سے کمزور کر رہا ہے۔
وطن صرف زمین کا نام نہیں، یہ دلوں کی وحدت سے بنتا ہے۔ جب دل بٹ جائیں، تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی اس پرچم کے سائے تلے ایک ہیں؟
تعلیم، معیشت، صحت، موسمیاتی تبدیلی، مہنگائی اور انصاف، ان تمام مسائل کا حل صرف اتحاد میں ہے۔ بکھری قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ ہمیں نئی نسل کو رواداری، برداشت اور تنقید برداشت کرنے کا ہنر سکھانا ہوگا تاکہ وہ کل ایک مثبت اور پُرامن پاکستان کی بنیاد رکھ سکے۔
میڈیا کو سنسنی خیزی کے بجائے شعور پھیلانے پر زور دینا ہوگا۔ سیاستدانوں کو اقتدار نہیں بلکہ خدمت کو مقصد بنانا ہوگا اور عوام کو نفرت نہیں بلکہ محبت کو ترجیح دینی ہوگی۔ اگر ہم سب ایک ہو جائیں، تو یہ وطن وہ پاکستان بن سکتا ہے جہاں کوئی بچہ بھوکا نہ سوئے، جہاں انصاف ہر در پر دستک دے، جہاں تعلیم ہر ذہن کو روشنی دے اور جہاں ہر شہری کو فخر ہو کہ وہ پاکستانی ہے۔
آئیں۔۔ آج ہم اقبال کے خواب اور قائداعظم کے پیغام کو حقیقت کا روپ دیں۔ آج سے ہم "میں" نہیں بلکہ "ہم" بن جائیں، تاکہ آنے والی نسلوں کو ہم ایک ایسا پاکستان دے سکیں جو متحد، خوشحال اور پُرامن ہو، وہ پاکستان جو واقعی دنیا کے لیے ایک مثال بن جائے۔

