Pur Tashadud Hajoom Se Doori, Bashaoor Shehri Ki Pehchan
پرتشدد ہجوم سے دوری، باشعور شہری کی پہچان

دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں کسی فرد پر ظلم صرف ایک جرم نہیں بلکہ انسانی اقدار، مذہبی تعلیمات اور آئین کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہمارا دین اسلام انسان کی جان، مال اور عزت کے تحفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ "جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا"۔ یہ آیت نہ صرف انسانی جان کی حرمت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ کسی ایک فرد پر ظلم پورے معاشرے پر ظلم کے مترادف ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جہاں مشتعل ہجوم کسی الزام، افواہ یا جذباتی اشتعال کے تحت قانون کو ہاتھ میں لے لیتا ہے اور کسی فرد کو تشدد کا نشانہ بنا دیتا ہے۔ بعد میں جب حقیقت سامنے آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص بے گناہ تھا، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
ہجوم کا تشدد صرف ایک فرد کی زندگی نہیں چھینتا بلکہ پورے معاشرے میں خوف، نفرت اور انتقام کی فضا قائم کر دیتا ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف متاثرہ خاندان کو تباہ کرتے ہیں بلکہ معاشرتی اعتماد، قانون کی بالادستی اور انسانی وقار کو بھی شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ مشتعل ہجوم میں شامل افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ انصاف کر رہے ہیں، حالانکہ وہ دراصل قانون شکنی اور ظلم کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ قانون کا نفاذ ریاستی اداروں کا کام ہے، نہ کہ عام شہریوں کا۔ جب عام لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تو وہ نہ صرف جرم کرتے ہیں بلکہ ریاستی نظام عدل پر بھی حملہ کرتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں، نوجوانوں اور عام شہریوں کو یہ شعور دیں کہ کسی بھی مسئلے کا حل پرتشدد رویے میں نہیں بلکہ قانون، دلیل اور برداشت میں ہے۔ تشدد کرنے والے ہجوم کا حصہ بننے سے انکار دراصل ایک باشعور اور مہذب شہری ہونے کی علامت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نفرت اور غصے کے بجائے صبر، رواداری اور قانون کی پیروی کریں۔ ہمیں یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہم تشدد کو کسی صورت قبول نہیں کرتے اور امن، شعور اور انسانیت کے علمبردار ہیں۔ معاشرے کی ترقی، امن اور انسانی عظمت کے فروغ کے لیے یہ لازمی ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے ماحول میں برداشت، افہام و تفہیم اور قانون کی بالادستی کو فروغ دیں۔ اگر کسی کے ساتھ ناانصافی ہو بھی جائے تو اس کا حل قانون کے دائرے میں رہ کر نکالنا ہی ایک مہذب شہری کا شیوہ ہونا چاہیے۔
تشدد کے خلاف مثبت رویے کی ترویج اسکولوں، کالجوں، مساجد، میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے ممکن ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ سکھانا ہوگا کہ حقیقی طاقت قانون پر یقین رکھنے میں ہے، نہ کہ مشتعل ہجوم کا حصہ بننے میں۔ استاد، علما، والدین اور معاشرتی رہنما اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی بھی واقعے کی ویڈیو کا وائرل ہونا لمحوں کا کھیل بن چکا ہے۔ ایسے میں بغیر تحقیق کے جذباتی ہو کر محض کسی الزام کی بنیاد پر ہجوم کا مشتعل ہوجانا اور تشدد کا راستہ اپنا کر قانون اپنے ہاتھ میں لینا نہ صرف ایک مجرمانہ عمل ہے بلکہ یہ پورے معاشرے کی بدنامی کا سبب بھی بنتا ہے۔ ہمیں بطور ذمہ دار شہری، اپنے رویے پر قابو رکھنا اور دوسروں کو بھی سمجھانا ہوگا کہ سچ تک پہنچنے کے لیے افواہوں پر نہیں بلکہ تحقیق اور قانون پر انحصار ضروری ہے۔
اسلامی تعلیمات بھی ہمیں صبر، بردباری اور عدل کا درس دیتی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جذبات کی رو میں بہہ کر کسی بے گناہ کی جان لینا صرف قانون شکنی ہی نہیں بلکہ انسانیت کی تذلیل بھی ہے۔ پرہجوم تشدد کے واقعات صرف متاثرہ فرد یا خاندان تک محدود نہیں رہتے بلکہ یہ پورے معاشرے میں خوف، بے یقینی اور عدم تحفظ کو جنم دیتے ہیں۔ جب ایک ہجوم کسی پر ظلم کرتا ہے تو یہ پیغام جاتا ہے کہ کوئی بھی فرد کبھی بھی نشانہ بن سکتا ہے، خواہ وہ قصوروار ہو یا نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر شہری غیر محفوظ ہے اور یہ ایک مہذب معاشرے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
اگر ہم کوئی ایسا واقعہ دیکھیں تو ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دیں۔ اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر، کسی معصوم کو ہجوم کے تشدد سے بچانے کی کوشش کریں۔ بعض اوقات ایک آواز، ایک کال، یا ایک ویڈیو کلپ کسی کی جان بچا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تشدد اور انتقام کا راستہ ہمیں کبھی کامیابی نہیں دلا سکتا۔ ایک پرامن اور مہذب معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں اختلاف کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے اور ہر فرد کی جان، مال، عزت کو تحفظ حاصل ہو۔
مہذب معاشرے کی بنیاد شعور، اخلاقیات اور انصاف پر مبنی ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی معاشرہ ان اقدار سے ہٹ کر جذبات، انتقام اور غیر ذمہ دار رویوں کا شکار ہوتا ہے تو وہاں بدامنی، عدم تحفظ اور تشدد جنم لیتا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں ہجوم کے ذریعے تشدد کے کئی افسوسناک واقعات رونما ہو چکے ہیں، جنہوں نے نہ صرف انسانی جانیں لیں بلکہ عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس تشویشناک رجحان کو روکنے کے لیے ایک اجتماعی شعور اور قومی عزم کی ضرورت ہے۔
ہجوم کا تشدد اکثر کسی الزام، افواہ یا جذباتی اشتعال کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ خود کو جج، وکیل اور جلاد سمجھتے ہوئے سڑکوں پر انصاف بانٹنے لگتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قانون کا نفاذ صرف ریاست کی ذمہ داری ہے اور کسی بھی فرد یا گروہ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ازخود فیصلے کرے۔ ایسے غیر قانونی اقدامات نہ صرف جرم ہیں بلکہ انسانی المیہ بھی۔ ہجوم کے تشدد کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ عقل و شعور کو مفلوج کر دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہجوم کا حصہ بننے سے پہلے رک کر سوچیں، کہ کہیں ہم کسی بے گناہ کی زندگی چھیننے کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔
تشدد کا آغاز ہمیشہ ایک جذباتی جواز سے ہوتا ہے، مگر اس کا انجام تباہی ہوتا ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں قتل یا مار پیٹ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا، بلکہ اس سے مزید فساد جنم لیتا ہے۔ اگر کسی پر الزام ہے تو اس کا فیصلہ عدالت کرے گی، قانون کرے گا، نہ کہ مشتعل افراد۔ پاکستان کا آئین ہر شہری کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائے۔ پرہجوم تشدد کے رجحان کی روک تھام کے لیے سب سے ضروری چیز تعلیم اور شعور ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو اسکول، گھر اور معاشرے میں قانون کی اہمیت، صبر و تحمل اور اختلاف رائے کے مہذب انداز سے اظہار کے طریقے سکھانے کی ضرورت ہے۔ جب ہم تعلیم کو صرف ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ اخلاقی تربیت کا ذریعہ بھی بنائیں گے، تب ہی ہم ایک ذمہ دار نسل تیار کر سکیں گے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم کسی افواہ، الزام یا جذباتی مواد کو پھیلانے سے گریز کریں۔ سچائی جانے بغیر کسی کے خلاف نفرت انگیز پوسٹ یا کمنٹس کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ قانونی جرم بھی ہو سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی پرتشدد رویے کی سخت ممانعت ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں کسی پر غلط الزام لگانا، بغیر ثبوت کے سزا دینا یا تشدد کرنا یا کسی انسان کی تذلیل کرنا ایک سنگین گناہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "کسی مسلمان کو بلاوجہ قتل کرنا ساری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے"۔ ہمیں اپنی دینی ذمہ داری کا بھی احساس کرنا ہوگا کہ ہم انصاف کے داعی بنیں، ظالم نہیں۔
آئیں، ہم سب یہ عہد کریں کہ کبھی کسی پرتشدد ہجوم کا حصہ نہیں بنیں گے، بلکہ اگر کبھی کسی شخص کی جان خطرے میں ہو تو ہم اسے بچانے کی کوشش کریں گے، پولیس کو اطلاع دیں گے اور معاشرے میں امن، برداشت اور قانون کی پاسداری کا پیغام پھیلائیں گے۔ ایک مہذب معاشرے کی تشکیل تبھی ممکن ہے جب ہم سب اپنے کردار سے یہ ثابت کریں کہ ہم انصاف، قانون اور انسانیت کے محافظ ہیں۔

