Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Malik Zafar Iqbal
  4. Jaali Aur Ghalat Khabron Par Yaqeen Mat Karen

Jaali Aur Ghalat Khabron Par Yaqeen Mat Karen

جعلی اور غلط خبروں پر یقین مت کریں

دنیا میں اگر کسی معاشرے کو کمزور کرنا مقصود ہو، تو بندوق، توپ یا بم کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بس اس معاشرے میں ایسی خبریں اور معلومات پھیلا دی جائیں جو سچائی سے کوسوں دور ہوں۔ ایسی خبریں جو لوگوں کے ذہنوں کو مسخ کریں، اعتماد کو توڑیں، ریاستی اداروں کو مشکوک بنائیں اور معاشرے کو شک، نفرت اور انتشار کی طرف لے جائیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی اسی فتنے کی زد میں ہے، جہاں جھوٹ، آدھے سچ اور جعلی خبروں کی یلغار نے قوم کو فکری بحران میں مبتلا کر رکھا ہے۔

سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال نے ہر شخص کو ایک "ذریعۂ اطلاعات" بنا دیا ہے۔ اب ہر موبائل فون رکھنے والا شخص خبر بناتا ہے، گھڑتا ہے اور پھیلاتا ہے اور چونکہ ایسی خبریں سنسنی خیز اور جذبات انگیز ہوتی ہیں، لوگ بنا تصدیق کیے آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں قومی بیانیہ بکھر جاتا ہے، عوام الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں اور دشمن ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

یہ معاملہ صرف ایک سادہ غلط فہمی کا نہیں۔ یہ ایک باقاعدہ جنگ ہے، جو ہائبرڈ وارفیئر کے نام سے جانی جاتی ہے۔ دشمن گولہ بارود کے بجائے فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ایکس یعنی ٹویٹر کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ہر روز ایک نئی سازش، ایک نیا پروپیگنڈا اور ایک نئی مہم ہمارے ذہنوں پر حملہ آور ہوتی ہے اور بدقسمتی سے، ہم میں سے اکثر اس کا حصہ بن کر خود اپنے خلاف جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔

اس گمراہی کے پیچھے صرف بیرونی ہاتھ ہی نہیں، کچھ اندرونی عناصر بھی سرگرم ہیں جو ذاتی مفادات کی خاطر معاشرے میں زہر گھول رہے ہیں۔

دین اسلام نے جھوٹ سے بچنے اور سچ کی تحقیق پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں واضح حکم ہے کہ "اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو تحقیق کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا دو، پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ"۔

یہی اصول ہمیں آج کی میڈیا یلغار سے بچنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ ہر وائرل ویڈیو، ہر بریکنگ نیوز اور ہر ٹرینڈنگ پوسٹ لازمی سچ نہیں ہوتی بلکہ ان کا مقصد صرف ہماری سوچ کو قابو میں لینا، ہمیں تقسیم کرنا اور ہمارے اداروں کو بدنام کرنا بھی ہوسکتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم اس طوفان کا مقابلہ کیسے کریں؟ سب سے پہلا قدم ذاتی ذمہ داری ہے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ خبر کو قبول کرنے اور اسے آگے پھیلانے سے پہلے اس کی تصدیق کریں۔ سرکاری ذرائع، معروف نیوز ایجنسیاں اور مستند صحافی ہی ایسے ذرائع ہیں جن پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی پوسٹ اشتعال انگیز، نفرت انگیز یا مشکوک ہو تو اسے فوراً رپورٹ کریں، آگے نہ بڑھائیں۔

دوسرا قدم تعلیمی اداروں میں میڈیا لٹریسی کو فروغ دینا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کو سکھایا جائے کہ کسی بھی مواد کو سچ ماننے سے پہلے اسے کس طرح جانچنا ہے۔ انہیں تنقیدی سوچ اور صحافتی اصولوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔

اس میں میڈیا کی اپنی ذمہ داری بھی بہت اہم ہے۔ ٹی وی چینلز کو ریٹنگ کی دوڑ میں بغیر تصدیق کے خبریں چلانے سے گریز کرنا ہوگا۔ صحافت کے بنیادی اصول یعنی سچائی، دیانت اور توازن کو بحال کرنا ہوگا۔ سنسنی اور جذبات انگیزی کے بجائے تحقیق اور فیکٹ چیکنگ کو فوقیت دینا ہوگی۔

عوامی سطح پر یہ شعور اجاگر کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر ہم خود کو اس سازش سے نہیں بچائیں گے، تو نہ صرف ملک کی نظریاتی اساس متزلزل ہو جائے گی بلکہ ہم اپنے بچوں کے لیے ایک الجھا ہوا، غیر یقینی اور عدم استحکام سے بھرا پاکستان چھوڑ کر جائیں گے۔

آج کا دور صرف طاقت کے زور پر ملکوں کو جھکانے کا نہیں بلکہ ذہنی برتری اور بیانیے کی جیت کا دور ہے۔ جو قومیں شعور، علم، سچائی اور اتحاد کے ہتھیار سے لیس ہیں، وہی اس جنگ میں کامیاب ہوں گی اور جو قومیں افواہوں، غلط فہمیوں، نفرت انگیز بیانیوں اور سستی جذباتیت کا شکار بن جائیں گی، وہ اپنے وجود کو خود کمزور کریں گی۔

یاد رکھیے، جعلی خبر صرف ایک جھوٹ نہیں ہوتی، یہ ایک ایسا زہر ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ پورے معاشرے کی روح کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس کا علاج صرف ہوش، دانش اور سچائی سے ممکن ہے۔ ہمیں یہ جنگ قلم، شعور اور اتحاد سے لڑنی ہے۔

آئیں، آج عہد کریں کہ ہم کسی بھی خبر کو بغیر تصدیق آگے نہیں بڑھائیں گے، اپنے اردگرد جعلی خبروں کو پہچانیں گے اور دوسروں کو بھی اس شعور سے آراستہ کریں گے۔ یہی شعور، یہی علم اور یہی اتحاد ہمارا اصل ہتھیار ہے۔

ہمارے ہاں اکثر مواقع پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کوئی سانحہ یا کوئی احتجاج ہو تو اس کے پیچھے عموماً ایک جھوٹی خبر، من گھڑت ویڈیو یا فرضی دعویٰ ضرور ہوتا ہے۔ یہ صرف اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم طرزِ عمل ہے جس کے ذریعے عوام کو الجھا کر ملک کے استحکام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال سے بچنے اور جعلی خبروں کے ذریعے انتشار پھیلانے والوں کے خلاف موثر قانونی کاروائی کے لئے پیکا ایکٹ کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔

پیکا ایکٹ 2016 میں بنایا گیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی رفتار اور شدت میں اضافہ ہوا تو قانون میں ترامیم کی ضرورت پیش آئی۔ حالیہ ترامیم میں جھوٹی خبروں اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز، بدنیتی پر مبنی یا اداروں کے خلاف مہم چلانے والوں کے خلاف سزائیں سخت کی گئی ہیں۔ اب ایسی سرگرمیوں پر پیکا ایکٹ کے تحت تین سال قید اور بیس لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔

یہ اقدام اس لیے اہم ہے کہ فیک نیوز اب محض ایک "جھوٹی بات" نہیں رہی، بلکہ یہ ایک سیاسی ہتھیار، ایک نفسیاتی جنگ اور ریاستی مفادات کو کمزور کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ چاہے وہ فوج کے خلاف کوئی جعلی ویڈیو ہو، عدلیہ پر جھوٹا الزام ہو یا کسی حکومت کے خلاف مفروضوں پر مبنی مہم، اس کا اثر صرف ایک ادارے یا شخصیت تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پورے ملک کی ساکھ پر پڑتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف قانون کافی ہے؟ اور کیا قانون سازی سے پہلے عوام کو اس قانون کے بارے میں مکمل آگاہی دی گئی ہے؟

یہاں اصل مسئلہ دو طرفہ ہے۔ ایک طرف وہ عناصر ہیں جو جان بوجھ کر پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ عام لوگ ہیں جو لاعلمی، جذبات یا سستی شہرت کی خاطر ایسی پوسٹس کو بغیر تصدیق شیئر کرتے ہیں اور یوں وہ بھی قانون کی زد میں آ جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ عوام کو پیکا ایکٹ کے دائرہ کار، دفعات اور ممکنہ نتائج کے بارے میں شعور دیا جائے۔

خصوصاً نوجوان، جو سوشل میڈیا کے سب سے بڑے صارف ہیں، انہیں اس بات کی مکمل تربیت دی جائی چاہئے کہ کوئی بھی پوسٹ، ویڈیو یا تبصرہ شیئر کرنے کے قانونی نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ اکثر نوجوان جذباتی ہو کر، یا کسی مخصوص سیاسی سوچ کے زیر اثر ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جوقومی مفادات کے خلاف ہوتی ہیں۔

جعلی خبروں کے ناسور پر قابو پانے کے لئے شعور، تعلیم اور آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور میڈیا ہاؤسز کو اس مہم میں شامل کرنا ہوگا تاکہ صرف سزاؤں کا اعلان نہ ہو، بلکہ قانون کا مقصد یعنی جعلی خبروں کی روک تھام بھی ممکن ہو سکے۔

اس حوالے سے عوام کی سطح پر بھی تبدیلی ضروری ہے۔ اگر ہر شہری اپنی پوسٹ یا فارورڈ کردہ پیغام سے پہلے یہ سوچ لے کہ "کیا یہ بات سچ ہے؟ کیا یہ پوسٹ ملک کے لیے نقصان دہ تو نہیں؟ اور کیا اس پوسٹ کو شیئر کرنے پرقانون ژکنی تو نہیں ہو رہی" تو نہ صرف معاشرہ ایک حد تک خودبخود جعلی خبروں سے فلٹر ہو جائے گا، بلکہ قانونی معاملات کی نوبت ہی کم آئے گی۔

ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کی آزادی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم کسی پر بھی الزام لگائیں، کسی بھی ادارے کو نشانہ بنائیں، یا جھوٹی خبروں سے عوام کے جذبات بھڑکائیں۔ آزادی اظہار رائے ایک عظیم نعمت ہے، لیکن اس کی حدود ہوتی ہیں۔ ہر آزادی کے ساتھ ذمہ داری بھی ہوتی ہے اور جہاں یہ ذمہ داری پوری نہ کی جائے، وہاں قانون اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک پرامن، مستحکم اور ترقی یافتہ ملک بنے، تو ہمیں نہ صرف جھوٹی خبروں سے بچنا ہوگا بلکہ انہیں پہچاننا، اس کے خلاف آواز اٹھانا اور اس کی روک تھام میں اداروں کا ساتھ دینا ہوگا۔

یاد رکھیں، جھوٹی خبر صرف ایک کلک سے پھیلتی ہے، لیکن اس کا نقصان برسوں تک محسوس کیا جاتا ہے۔ اس لیے سچ بولیں، سچ سنیں اور سچ ہی پھیلائیں۔

دور جدید میں سوشل میڈیا نے جہاں معلومات تک رسائی کو آسان بنایا ہے، وہیں جھوٹی خبروں اور منفی پروپیگنڈے کے دروازے بھی کھول دیے ہیں۔ اب کوئی بھی فرد، کسی بھی وقت، کسی بھی خبر کو پھیلانے پر دسترس رکھتا ہے۔ چاہے وہ خبر سچی ہو یا جھوٹی۔۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹی خبریں اب صرف ایک اخلاقی یا صحافتی مسئلہ نہیں رہیں بلکہ قومی سلامتی، سماجی ہم آہنگی اور ریاستی استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔

پاکستان بھی جھوٹی خبروں کے چیلنج سے دوچار ہے۔ سوشل میڈیا پراہم قومی، داخلی اور خارجی معاملات اور فیصلوں کے خلاف جو طوفان برپا کیا جاتا ہے، وہ اکثر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ خبریں محض غلطی نہیں بلکہ بعض اوقات دشمن ایجنسیوں اور ریاست مخالف عناصر کا ایک باقاعدہ منصوبہ ہوتی ہیں۔

جھوٹ بولنا یا پھیلانا صرف ایک جھوٹا جملہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک گناہ، ایک بددیانتی اور اعتماد کی پامالی ہے۔ ہر مذہب، ہر تہذیب اور ہر اخلاقی نظام میں جھوٹ کو بُرا سمجھا گیا ہے۔ اسلام میں جھوٹ کو منافق کی نشانی کہا گیا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت بھیجی ہے اور حدیث مبارکہ کے مطابق جھوٹ انسان کو فتنہ پر لے جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ جہنم میں جا پہنچتا ہے۔ جب ایک فرد جھوٹ بولتا ہے یا جھوٹ پھیلاتا ہے، تو وہ صرف اپنے ضمیر کو مجروح نہیں کرتا بلکہ دوسروں کی زندگیوں، ساکھ اور احساسات کو بھی مجروح کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی ایک پوسٹ یا ایک ویڈیو کسی کی زندگی کو کیسے تباہ کر سکتی ہے۔ فرضی الزامات، جھوٹے سکینڈلز اور من گھڑت بیانات نے کتنے ہی لوگوں کو بے عزت، بلیک میل یا نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ جھوٹی خبروں کی بنیاد پر لوگ مشتعل ہو گئے، قانون ہاتھ میں لیا، حتیٰ کہ قتل جیسے جرائم بھی ہوئے۔

اخلاقی طور پر جھوٹی خبروں کو پھیلانا چوری یا فراڈ سے کم نہیں۔ جھوٹی خبریں گھڑنے اور پھیلانے والا لوگوں کے اعتماد، سچائی اور حقائق کو تباہ کر دیتا ہے۔ اصل نقصان وہی ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا، ایک سوسائٹی کا سچ پر سے یقین ختم ہو جانا اور معاشرے میں سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہوجانا۔۔

ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ کیا ہم ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جہاں سچ بولنے والا شرمندہ ہو اور جھوٹ بولنے والا فالوورز اور واہ واہ سمیٹے؟ کیا ہم اپنے بچوں کو سکھا رہے ہیں کہ وائرل ہونا، سچا ہونے سے زیادہ ضروری ہے؟ کیا ہمارے نزدیک شہرت، سچائی اور حقیقت سے بڑھ کر ہوگئی ہے؟

جھوٹی خبروں کو صرف قانون سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے لیے ضمیر کی عدالت کو بیدار کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے گھروں، سکولوں، مدرسوں اور اداروں میں سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی تربیت دینا ہوگی۔ اگر کوئی بچہ سوشل میڈیا پر کچھ شیئر کرتا ہے، تو اسے سکھانا ہوگا کہ "ہر بات جو دیکھی یا سنی جائے، ضروری نہیں کہ وہ سچ ہو"۔ اگر ہم خود جھوٹے مواد کو آگے بڑھا رہے ہیں، تو پھر ہم دوسروں کو کیسے روکیں گے؟ اخلاقی زوال تب ہوتا ہے جب غلط چیز کو معمول سمجھ لیا جائے۔ بدقسمتی سے، جھوٹی خبریں اب معمول بن چکی ہیں اور یہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz