Qarz Aik Zaroorat Ya Fashion
قرض ایک ضرورت یا فیشن
مرزا غالب اردو اور فارسی کے ایک بڑے مشہور اور عظیم شاعر تھے جو ایک عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی انتہائی مقبول اور پسند کئے جاتے ہیں۔ ان کی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف صرف ادبی حلقے ہی نہیں بادشاہ وقت بھی کرتے تھے گو وہ اپنے اشعار میں اپنا رشتہ اور پیشہ سپاہ گری سے بھی جوڑتے تھے لیکن یہ تاریخی واقعہ ہے کہ اپنی تمام تر ادبی عظمت اور بڑائی کے باوجود کثرت سے نوشی اور جوے کی علت کی باعث متھراداس مہاجن کے مقروض ہو گئے اور عدم ادائیگی قرضہ کی بات عدالت دیوانی تک جا پہنچی۔
مقدمے کی سماعت مفتی صدرالدین کر رہے تھے جو مرزا صاحب کے مربی اور دوست تھے خود بہت اچھے شاعر اور غالب کے مداح تھے سماعت کے دوران مفتی صاحب نے پوچھا "مرزا نوشہ یہ آپ قرض کیوں لیتے ہی آخر معاملہ کیا ہے؟" غالب نے تھوڑے توقف کے بعد کہا۔ "کیا عرض کروں میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا؟" مفتی صدرالدین مسکراے: "کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟"غالب نے برجستہ کہا۔ "ایک شعر موزوں ہوگیا ہے اجازت ہو تو عرض کروں" مفتی صاحب بولے فرمائیے مرزا صاحب " تو غالب نے ایک نظر مفتی صاحب اور متھراداس مہاجن کو دیکھا اور اپنے مخصوص انداز میں یہ شعر پڑھا۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لا وے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
مفتی صاحب بے اختیار ہنس پڑے اور بولے خوب، خوب کیوں مرزا صاحب! رسی جل گئی، پر بل نہ گیا۔ آپکے شعر کی داد ضرور دونگا مگر عدالت فیصلہ مدعی کے حق میں ہی دیے بغیر نہیں رہ سکتی تو مرزا نے کہا ایک شعر رات کو ہوگیا تھا عرض کئے دیتا ہوں
ہم اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن کہ رکھتا ہے
شعاع مہر سے تہمت نگہ کی چشم روزن پر
اور چپ ہوگئے شعر آسانی سے سمجھ آنے والا نہ تھا مگر مفتی صاحب سمجھ گئے زر ڈگری خود ادا کردیا اور کہا آپ شاعری کریں اور مےخواری چھوڑیں۔ مرزا نے کہا مے خواری کیسی مفتی صاحب! اور یہ شعر کہتے ہوے عدالت سے چلے گئے۔
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
قرض کی یہ کرامات صرف غالب تک محدود نہیں تھیں بلکہ آج بھی ایک دنیا چاہتے ہوے یا نا چاہتے ہوئے اس کے سحر میں گرفتار ہے۔ بات کسی ایک فرد کی نہیں اب تو قرض میں پورا پورا خاندان، معاشرہ اور پورا ملک گھرا ہوا نظر آتا ہے دنیا کی پوری پوری قومیں مقرض ہیں اگر یہ کہیں تو بےجا نہ ہوگا کہ دنیا کا پورا نظام آج قرض پر چل رہا ہے۔ ہمارے جیسے غریب ممالک کا ہر بچہ پیدا ہی مقروض ہوتا ہے۔ کہتے ہیں انسان کو غربت، بے روزگاری، اور فضول خرچی جیسی مجبوریاں قرض لینے پر مجبور کر دیتی ہیں لیکن آج کے دور میں معاشی ترقی کے لیے قرض لینا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ آفات ارضی و سماوی اور نقصانات کا ازلہ بنا قرض ممکن نہیں ہو پاتا۔
حقیقت یہ ہے کہ قرض کو کوئی اچھی چیز نہیں کہا جا سکتا اور خاص طور پر اگر یہ قرض سود پر حاصل کیا جاے تو مزید خطرناک ہوتا ہے۔ غالب کے دور میں قرض وصولی شاید آسان تھی مگر آج کے دور میں قرض لینا اور دینا ضرورت سے زیادہ فیشن اور رواج بن چکا ہے قرض لینے والے اور دینے والے دونوں کے معیار اور اطوار بدل چکے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں ادھار اور قرض سوچ سمجھ کر دیں کیونکہ اپنے ہی پیسے پھر بھکاری بن کر مانگنے پڑتے ہیں اور ادھار لینے والا جج بن کر تاریخ پر تاریخ دیتا ہے۔ آج کے دور میں قرض دینا بھولا پن اور قرض واپس لینا حکمت اور عقلمندی شمار کیا جاتا ہے۔ اکثر قرض کی وصولی ہمارے ذاتی تعلقات کے اختتام کا باعث بنتی ہے۔
کہتے ہیں کہ عام انسان کے لیے قرض سے بڑی لعنت شاید دنیا میں کوئی ہو۔ ایک قرض ہزار عیوب کی جڑ ہے اس سے انسان جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، فریب و مکاری سے کام لینا، چا لبازی کرنا اور خوشامند کرنا سب برائیاں سیکھ جاتا ہے ضرورت مند کا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا کس قدر تکلیف دہ ہے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا لیکن بھوک زندگی کے سارے بوجھ اُٹھانا سکھا دیتی ہے۔
قرض کے بارے میں مختلف اقوال ہیں"قرض کو محبت کی قینچی بھی کہا جاتا ہے" کہتے ہیں کہ فضول خرچی کا لازمی نتیجہ قرض ہوتا ہے اور ادائیگی قرض کے متعلق دلفریب ذرائع آمدنی کا تصور باندھ کر غیر ضروری قرض اخرجات کے لیے بے دھڑک قرض لینا سخت غلطی ہے لیکن بعض حالات ایسے ہوتے ہیں جو کسی انسان کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ قرض لے اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہ جاتا مثلاََ ایک شخص جو روزمرہ سبزی بیچتا ہے اچانک بیمار پڑ جاتا ہے۔
گھر میں زیورات کا تو کیا ذکر ہے کپڑے پہننے کو ناکافی ہیں علاج اور کوشش کے باوجود کسی صورت اچھا نہیں ہو پاتا بیماری طول پکڑجاتی ہے ایسی صورت میں وہ کیا کرے گا؟ پھر ماحول، فضا، روایات، رسم ورواج یہ چیزیں بھی انسان کو قرض لینے پر مجبور کر دیتی ہیں اور پھر محدود آمدنی سے اس کی واپسی مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہے وہ سود در سود ادا کرتے کرتے مزید قرض دار ہوتا چلا جاتا ہے اور قرض کا چکرکے اس شکنجہ میں ڈال کر کشمکش حیات اس کو دبو چتی ہے اسکی ہڈیاں چٹخنے لگتی ہیں دل ودماغ معطل ہوجاتے ہیں جسم لاغر و بےکار اور روح مضطرب ہوتی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ قرض بری بلا ہے چاہے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ہو۔ کیونکہ یہ قرض رفتہ رفتہ مجبوری اور ضرورت سے زیادہ عادت اور لت بنتا چلا جاتا ہے۔ کبھی ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک معزز شخص نے کسی سے قرض مانگا تو اس نے پوچھا کیا ضرورت ہے؟
جواب دیا گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے کے لیے پیسے نہیں ہیں اس لیے قرض چاہیے تو قرض دینے والے نے پوچھا جب پیٹرول کے پیسے نہیں ہیں تو اتنی مہنگی گاڑی کیسے خرید لی ہے تو جواب دیا باپ کی وراثت سے چند بیگھے زمین رہن رکھ کر بنگلا بنایا پھر بنگلا رہن رکھ کر گاڑی خرید لی اب موٹر گاڑی کو کوئی رہن نہیں رکھتا ہے اس لیے میرا چکر رک گیا ہے اور قرض کی ضرورت پر گئی ہے۔
دوسری جانب سود خور مہاجن اور بنک پہلے پہلے تو قرض دینے کے لیے سنہرے باغ اور آسان شرائط پر قرض کی پیشکش کرتے ہیں لیکن پھر اس قرض کی وصولی کے لیے ان کا رویہ سخت ترین ہو جاتا ہے اور ان کی شرائط بڑھتی چلی جاتی ہیں اور انسان کی مجبوری اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتی ہے اور وہ پوری زندگی اس چکر سے نکل نہیں پاتا۔ قرض کا یہ چکر فرد سے خاندان پھر خاندان سے قوم اور ملک تک بڑھتا چلا جاتا ہے ہماری قوم اس قدر مقروض ہو چکی ہے کہ آج ہمارے ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ مقرض پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں قرضہ جات کی دو مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔
ایک وہ قرضہ جات جولوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مجبوراََ لیتے ہیں اور پھر اس کی واپسی کر دیتے ہیں یہ قرض حسنہ کہلاتا ہے جس پر سود یا فالتو رقم ادا نہیں کی جاتی امام غزالیؒ کہتے ہیں"قرض حسنہ ادا کرنے کی طاقت ہوتے ہوے ایک ساعت کی دیر کرنا بھی ظلم ہے مگر قرض خواہ کی اجازت سے"۔ اسے ہم دستی یا ہاتھ ادھار بھی کہتے ہیں دوسرے وہ قرضہ جات جو ہم طویل عرصہ کے لیے لیتے ہیں اور جس پر ایک کثیر رقم کا سود ادا کرتے ہیں اور پھر سود در سود کی اس دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں اس طرح کے قرضے آج کل عام آدمی کاروبار کی بہتری، گھر بنانے، گاڑی خریدنے، زراعت کی ترقی جیسے مقاصد کے لیے حاصل کرتا ہے۔ منشی پریم چند لکھتے ہیں"قرض وہ مہمان ہے جو ایک دفعہ آنے کے بعد جانے کا نام نہیں لیتا"۔ حدیث مبارک ہے "شہید کے سب گناہ بخش دئیے جایں گے سواے قرض کے"۔
اسلام ہمیں خرچ میں میانہ روی کا حکم دیتا ہے فضول خرچی اور بخل سے منع کرتا ہے اور سود کو گناہ کبیرہ قرار دیتا ہے۔ لہذا قرض سے ہر ممکن اجتناب ازحد ضروری ہے اور قرض کی واپسی یا ادائیگی اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ اس کی معافی قیامت میں بھی نہیں ہے۔ یاد رہے قرض ہم پر کسی کا حق ہوتا ہے کسی کا حق کھا کر انسان دنیا میں تو خوش رہ سکتا ہے لیکن روز محشر وہی اس کے گلے کا طوق ہوگا۔ قرض کسی فرد کا ہو، بنک کا ہو یا آئی ایم ایف کا اسے کوئی بھی اچھا نہیں کہہ سکتا یہ ہماری زندگی میں مشکلات میں اضافہ ہی کرتا ہے۔
ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کی بازگشت سے خوف اس لیے ہی محسوس ہوتا ہے کہ غریب عوام اس پروگرام کی سختیاں مزید کیسے برداشت کر پائیں گے؟ یہ عجیب آئی ایم ایف ہے جس کا سارا بوجھ ہمیشہ غریب کے کندھوں پر ہی آجاتا ہے۔