Apni Zaat Se Jang
اپنی ذات سے جنگ
بڑی مشہور روایت ہے کہ جب اللہ کے بنی حضرت نوحؑ اپنے نیک لوگوں کو لے کر کشتی میں بیٹھے تو انہیں کشتی میں ایک بوڑھا نظر آیا۔ اسے کوئی پہچانتا بھی نہیں تھا۔ آپؑ نے ہر چیز کا جوڑا جوڑا کشتی میں بٹھایا تھا۔ مگر وہ اکیلا تھا۔ لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔ وہ حضرت نوحؑ سے پوچھنے لگے کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ حضرت نوحؑ نے اس سے پوچھا، بتاؤ تم کون ہو؟ وہ کہنے لگا، جی میں شیطان ہوں۔
آپ نے سن کر فرمایا تو اتنا چالاک بدمعاش ہے کہ کشتی میں بھی آ گیا ہے۔ کہنے لگا، جی مجھ سے غلطی ہوگئی ہے اب آپ مجھے معاف فرما دیں۔ آپؑ نے فرمایا تمہیں ہم ایسے ہی نہیں چھوڑیں گے تو ہمیں اپنا گر بتاتا جا جس سے تو لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔ کہنے لگا جی میں سچ سچ بتاؤں گا البتہ آپ وعدہ کریں کہ آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے ہم تمہیں چھوڑ دیں گے تو وہ کہنے لگا۔ میں دو باتوں سے انسان کو زیادہ نقصان پہنچاتا ہوں۔ (1)حسد (2) حرص۔
وہ پھر کہنے لگا کہ حسد ایک ایسی چیز ہے کہ میں خود اس کی وجہ سے برباد ہوا اور حرص وہ چیز ہے جس کی وجہ سے آدمؑ کو جنت سے زمین پر اتار دیا گیا۔ اس لیے میں انہی دو چیزوں کی وجہ سے انسانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہوں۔ واقعتاً یہ دونوں ایسی خطرناک بیماریاں ہیں جو تمام بیماریوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ آج کے سب لڑائی جھگڑے یا تو حسد کی وجہ سے ہیں یا حرص کی وجہ سےہی ہوتے ہیں۔
حاسد انسان اندر ہی اندر آگ میں جلتا رہتا ہے۔ وہ کسی کو اچھی حالت میں دیکھ نہیں سکتا۔ جب دوسرے انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہوتی ہیں تو اسے دیکھ کر حاسد کے اندر یہ مروڑ پیدا ہوتے ہیں کہ وہ اچھی حالت میں کیوں ہے؟ کہتے ہیں حسد کی وجہ سے حرص اور حرص کی وجہ سے حسد پیدا ہوتا ہے۔ ہر اخلاقی برائی دنیا وآخرت میں نقصان دہ ہوتی ہے۔ حسد کا شکار انسان دنیا میں ہی نفسیاتی اذیت سے دوچار رہتا ہے۔ لوگ اپنی پریشانیوں سے نہیں ڈرتے بلکہ دوسروں کی خوشیاں دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں۔
ہمارے پاک نبی ﷺ کا فرمان ہے حسد کی آگ انسان کی نیکیوں کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے اور یہ وہ بیماری ہے جس نے سابقہ امتوں کے دین و ایمان کو برباد کردیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا "وَمن شرحاسد اذا حِ حسد" (اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے)۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اسے رب تعالیٰ کی جانب سے بےشمار صفات سے نوازا گیا ہے۔ وہیں چند کوہتایاں اور خامیاں بھی رکھ دی گئی ہیں جو اس کے بشر ہونے کی دلیل ہوتی ہیں۔
انسان کو ساتھ ساتھ ان خامیوں اور کوہتایوں کے ادراک کی صلاحیت اور ان سے بچنے اور اپنے سے دور کرنے کا سلیقہ اور شعور بھی عطا کیا ہے۔ یہ خامیاں جسمانی، روحانی قسم کی ہوتی ہیں جو نفسیات واخلاق سے تعلق رکھتی ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے کہ "کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے"۔ حقیقت میں انسان کا نفس بنیادی طور پر دوسروں سے بلند و برتر رہنا چاہتا ہے۔ جب وہ کسی کو اپنے سے بہتر حال ومقام پر دیکھتا ہے تو یہ چیز اس پر گراں گزرتی ہے۔ وہ چاہتا یہ ہے کہ یہ نعمت اُس سے چھن جاے تاکہ دونوں برابر ہو جائیں۔ اس لیے بزرگ کہتے ہیں کہ اللہ کی تقسیم سے اختلاف کو دراصل حسد کہا جاتا ہے۔
اسی طرح تنگدلی، اجارہ داری کا خبط، غرور وتکبر، محرومی یا احساس کمتری، خبط عظمت، زعم پارسائی، علم وفن میں برتری کی خواہش، بغض و عناد، اپنی حیثیت و مقام کھو دینے کا خوف اور حرص ہی حسد کی وجوہات بنتی ہیں۔ کہتے ہیں پھول اپنے ساتھ والے پھول کا مقابلہ کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے وہ تو صرف کھلتے ہیں۔ اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ پہاڑوں کی بلندی درختوں کی ہریالی حسد کے جذبے سے پاک ہوتی ہے۔ ایک مسلمان کی اصل دولت یہ ہے کہ اس کے دل میں دنیا سے بے نیازی ہو اور وہ قناعت پسند ہو کیونکہ قناعت پسندی کا بڑا تعلق تقدیر پر ایمان اور توکل سے ہوتا ہے۔
یہ توکل انسان کو حسد سے بچاتی ہے۔ جو کھانا، لباس، پیسہ، گھر غرض کوئی بھی چیز اگر ہمارے نصیب کی ہے تو وہ اللہ رب العزت نے ہمیں ہی دینی ہی ہے۔ جو ہمیں نہیں ملا وہ ہمارا تھا ہی نہیں وہ کسی اور کی تقدیر میں لکھا تھا۔ یہی سوچ انسان کو اللہ کے فیصلوں پر راضی برضا رکھتی ہے۔ اللہ کی تقسیم پر راضی رہنا دراصل حسد کی رد اور ایمان کی سلامتی کی علامت ہوتی ہے۔ ُاس پاک ذات کے فیصلے اور تقسیم سے اختلاف ہمیں کفر کی جانب دھکیل دیتا ہے۔
یہ حسد چاہے دولت سے ہو، شہرت سے ہو، صحت سے ہو، صورت سے ہو یا پھر عزت سے ہی کیوں نہ ہو کسی صورت جائز نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ سب اللہ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں۔ جو وہ جسے چاہے، جو چاہے، جہاں چاہے، جتنا چاہے، جیسا چاہے اور جب چاہے عطا کر دے۔ یہ اسی رب العزت کا اختیار ہے۔ اس نے زندگی، رزق اور عزت و ذلت عطا کرنے پر اپنا اختیار رکھا ہے۔ جس سے اختلاف اسکی صفت اور بڑائی سے انکار ہوتا ہے۔ یہ حسد ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور جو بے شمار اخلاقی، نفسیاتی، روحانی اور جسمانی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ جس کی باعث حاسد ہر وقت مصیبت اور غم میں مبتلا رہتا ہے۔
اس مرض کی خصوصیت یہ ہے کہ حاسد کو حسد کا احساس تک نہیں ہونے دیتا۔ بس اندر ہی اندر جلتا کڑھتا رہتا ہے۔ حسد کا سفر ازل سے شروع ہوتا ہے۔ ابلیس کا انسان سے حسد پھر قابیل کا ہابیل سے حسد، برادران یوسف کا یوسفؑ سے حسد، یہود ونصاریٰ کا اسلام اور اہل اسلام سے حسد، مشرکین مکہ کا قرآن اور اہل قرآن سے حسد تاریخ کا حصہ ہیں۔ اسی حسد کے ہتھیار کو شیطان نے انسانوں پر استعمال کیا ہے۔ کہتے ہیں حسد سے ایمان جاتا ہے اور ایمان جانے سے دنیا و آخرت دونوں ہی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ شیطان نے اس بیماری کو اتنا عام کردیا ہے کہ اکثر لوگوں کا بچنا مشکل ہے البتہ کچھ لوگ ابھی باقی ہیں جو اس شر سے آج بھی محفوظ ہیں وی یقیناََ کوئی عام آدمی ہرگز نہیں ہو سکتے۔
مجھے ذاتی طور پر حسد کرنے والوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ دوران زندگی اور دوران ملازمت بےشمار اس مرض میں مبتلا افراد کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں کامیابیوں اور کامرانیوں سے حسد کی انوکھی اقسام دیکھنے میں آئیں۔ اکثر تمسخر، دل شکنی اور بلاوجہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
میرے دادا جان مرحوم کے ایک قریبی عزیز ہر وقت ان کے ساتھ ناراض اور تلخ رہتےتھے۔ اکثر اوقات کوئی نہ کوئی دل آزاری کی بات کردیتے ہر شادی، غمی، خوشی میں ناراض ہونا ان کا وطیرہ تھا۔ انہیں پھر بھی بار بار منایا جاتا اور وہ پھر کوئی بہانہ بنا کر ناراض ہوجاتے تھے۔ میں چھوٹا بچہ تھا مجھے سمجھ نہ آتی کہ ان کی ناراضگی کی وجہ کیا ہے؟ ایک مرتبہ میں نے دادا جان سے پوچھا تو وہ کہنے لگے ہماری اور ان کی ناراضگی کی وجہ صرف حسد اور جلن ہے۔ اور ہم جانتے بوجھتے ہوے بھی ہر بار ان کو منا لیتے ہیں۔ حسد کے لیے کسی خاص وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ جب دل میں یہ جگہ بنا لے تو یہ آگ سلگتی رہتی ہے۔ کسی بھی بہانے بھڑک اٹھتی ہے۔
میں نے پوچھا کہ بڑے ابا جی یہ حسد کیسی لڑائی ہوتی ہے؟ تو وہ ہنسے اور جواب دیا بیٹا یاد رکھو حسد دنیا کی سب سے بڑی اور خطرناک لڑائی ہوتی ہے۔ جو کسی ہتھیار سے نہیں بلکہ دلوں سے لڑی جاتی ہے۔ یہ واحد لڑائی ہے جس میں لڑنے والا صرف ایک فریق ہوتا ہے۔ دوسرا فریق صرف اپنا دفاع کرتا ہے۔ ہتھیار کا زخم بھر جاتا ہے لیکن دلوں کی نفرت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے یہ وہ آگ ہے جو دل و دماغ کو اپنی لپیٹ میں لیکر بھسم کر دیتی ہے۔ اس جنگ میں ہمیشہ حسد کرنے والا ہی لڑتا ہے اور وہی ہارتا ہے۔ حاسد کبھی جیت نہیں سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ حاسد جو پتھر پھینکتا ہے وہ واپس اسی کو آکر لگتا ہے۔
حسد کی اس بلاوجہ اور یکطرفہ لڑائی میں اپنے ہی بھائی، رشتہ دار، دوست اور ہمساے ٔ ہی فریق ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ عوام کی نسبت ہمارے اوپر رب کے انعامات کو زیادہ دیکھتے ہیں۔ جو انہیں ابھی حاصل نہیں ہوتے ہیں۔ یہی چیز دراصل حسد کہلاتی ہے۔ یہی حاسد ہمارے زوال نعمت سے خوش بھی ہوتے ہیں۔ بڑے ابا جی فرماتے تھے کہ دراصل حسد اپنے آپ اور صرف اپنی ذات سے بہت زیادہ محبت کی پیداوار ہوتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ بڑے ابا جی ہر مرض کا علاج ہے اس حسد کا کوئی علاج ہے؟ تو فرمایا حسد کو چھوڑنے کی دوا صرف ترک دنیا ہے جو بے حد دشوار کام ہے ورنہ حسد ایسی بیماری ہے جو حاسد کو مرنے سے پہلے ماردیتی ہے۔ جس کا کوئی علاج اب تک دریافت نہیں ہو سکا۔ البتہ جس سے حسد کیا جاے وہ درگزر سے اور بار بار معاف کرکے اس کے نقصان سے خود کو بچا سکتا ہے۔ میرے چچا بیاض سونی پتی مرحوم ایک مشہور صوفی شاعر اور روحانی شخصیت تھے وہ فرماتے تھے کہ "حسد انسان کی اپنے آپ سے اور اپنی ذات سے جنگ ہوتی ہے۔ اپنے اندر کی اس جنگ میں وہ صرف ہارتا ہے"۔
ہر شخص جل رہا ہے حسد کی آگ میں
اس آگ کو بجھا دے وہ پانی تلاش کر