Khatraat Ke Ishare
خطرات کے اشارے
سیاسی طوفان کی زد میں تو ایک سال سے تھے ہی۔ اب ایک سمندری طوفان کی آمد آمد ہے۔ ساحلی بستیاں خالی کروائی جارہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ التجا ہے کہ صرف کراچی ہی نہیں ساری ساحلی بستیوں کو اپنی امان میں رکھ۔ اپنے نائب حضرت انسان کو طوفان کی تباہی سے محفوظ رکھ۔ چاہے وہ کراچی میں ہوں۔ سندھ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ہوں۔ ایران بھارت کے جزیروں اور سمندر کنارے آبادیوں میں ہوں۔
ہر طوفان کی ایک آنکھ ہوتی ہے۔ بپر جوائے کی آنکھ معلوم نہیں کہاں ہے۔ ہمیں تو ویسے بھی اندھے طوفانوں نے گھیر رکھا ہے۔ ہم پر جو مصیبت بھی آتی ہے۔ اندھا دھند آتی ہے۔ ان شاء اللہ، یہ طوفان بھی گزر جائے گا۔ اس کے بعد بیانات کا طوفان آئے گا۔ متعلقہ اداروں کی آزمائش ہے کہ وہ جن بحرانوں کیلئے بنائے گئے ہیں۔ وقت آنے پر اپنی اہلیت کا مظاہرہ کرتے ہیں یا نہیں۔
آپ ایک ایسے ہم وطن بزرگ کے ذہنی کرب کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ جو اپنے نو آزاد ملک کا ہم عمر ہو۔ یا کچھ سال بڑا کہ 75سال سے اس کی آرزوئیں خاک ہوتی رہی ہوں۔ عمر کے آخری برسوں میں وطن عزیز میں افراتفری اور طوائف الملوکی میں غیر معمولی شدت آجائے۔ یہ سب کچھ ہمارے نام نہاد رہنمائوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ہزاروں ارب روپے کے قرضے لئےگئے اور اب ان کا سود بھی ہزاروں ارب تک پہنچ گیا۔ یہ قرضے جن مسائل کے حل کیلئے حاصل کئےگئے۔ وہ حل بھی ہوئے یا نہیں۔ وہ بلڈنگیں، ڈیم، بندرگاہیں، ایئر پورٹ کہاں ہیں۔ پھر یہ قرضے کہاں استعمال ہوئے۔ فی الحال ان قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے ہم 22کروڑ دن رات محنت کررہے ہیں۔ اس وقت میں سخت حبس اور گرمی میں جس پنکھے سے ہوا لے رہا ہوں۔ اب مجھے اس پر بھی ٹیکس ادا کرنا ہے، حالانکہ یہ میرا اپنا پنکھا ہے۔
میں بہت ہی سنجیدگی اور دردمندی سے آپ کے سامنے حقائق رکھناچاہتا ہوں کہ 1985 سے اس ملک پر حکومت کرنے والے سیاسی اور فوجی سربراہوں نے اپنی پالیسیوں اور انداز حکمرانی سے ملک کو کن ریڈ لائنوں پر پہنچادیا ہے۔ مختلف شعبوں کے اشاریے خطرے کی گھنٹیاں بجارہے ہیں۔ آپ بھی یورپ، دوبئی، کویت، عمان، امریکہ، آسٹریلیا جاتے رہتے ہیں۔ وہاں ایک دن میں ہی آپ کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو کتنی سہولتیں دے رہے ہیں۔ ماحول کتنا صاف ستھرا ہے۔ ایک فرد کو کیا کیا حقوق حاصل ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کا کتنا احترام کرتے ہیں۔
ریاست ان کے وقار کا کتنا خیال رکھتی ہے۔ وہ اپنے شہریوں کو اپنا مقابل نہیں خیال کرتی۔ ریاست کے سارے ادارے ایک ایک فرد کے سامنے جواب دہ ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ ان کی تنخواہیں، مراعات، ٹرانسپورٹ سب شہریوں کے محصولات سے ادا ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر شہری ان کا آقا ہے۔ اس کو آئین اور قانون کے مطابق ہر سہولت فراہم کرنا ریاست کے قیام کا مقصد ہے۔ سالہا سال کی منصوبہ بندی سے ان کے اشاریے بہت مناسب ہیں۔