Gand Phailane Ki Ayashi
گند پھیلا نے کی عیاشی
ایک صاحب نے پولینڈ کے شہر وارسا میں ایک پبلک واش روم استعمال کیا۔ واش روم میں داخل ہونے سے پہلے اُنہوں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی سافٹ ڈرنک کی ایک بوتل سے آخری گھونٹ بھرا اور پھر اِسی بوتل کو فلش ٹینک پر رکھ دیا۔ واش روم سے نکلنے کے بعد وہ کچھ ہی دور ایک ریسٹورنٹ میں موجود اپنے دوستوں کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔
چند ہی لمحات گزرے تھے کہ ایک نوجوان وہی بوتل ہاتھ میں پکڑے ریسٹورنٹ میں داخل ہوا، ان صاحب کے پاس پہنچا اور بوتل اُن کے سامنے رکھتے ہوئے بولا "یہ گند وہیں جا کر ڈالو جہاں سے آئے ہو۔ ان صاحب نے بہت بے عزتی محسوس کی لیکن وہ پولینڈ میں تھے کہیں اور نہیں۔ پاکستان ہوتا تو اول تو کسی نے اُنہیں اُن کا پھیلایا ہوا گند لا کر واپس نہیں کرنا تھا، بالفرض ایسا ہوتا بھی تو وہ صاحب ایسا کرنے والے کو سبق سکھا دیتے۔
اب وہ کسی دوسرے ملک میں ایسا کچھ کر نہیں سکتے تھے، اس لیے چپکے ہو رہے کہ گند پھیلانے کی جو عیاشی پاکستان میں میسر ہے، وہ بھلا دنیا کے کسی اور ملک میں کہاں دستیاب ہو سکتی ہے۔ اسی لیے تو ہم سب مل کر اس عیاشی سے پوری طرح فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اگرچہ ہم صفائی کو نصف ایمان قرار دیتے ہیں۔ لیکن ہم نے راہ وہ اپنا رکھی ہے کہ سب کچھ ہی تلپٹ ہوکر رہ گیا ہے۔
مجال ہے کہ ہمارا کوئی ایک عمل بھی مثبت طرزِ زندگی کی عکاسی کرتا ہو۔ کہنے کو بہت کچھ لیکن عملاً صفر۔ میدانِ سیاست یا محکمانہ گندگی پر تو ہم گلے شکوے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں ہمارا دھیان اُس گندگی کی طرف کیوں نہیں جاتا جو ہم دن رات اپنے اردگرد پھیلاتے رہتے ہیں۔ بھلے صفائی نصف ایمان ہے، لیکن ہمارے رویوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا نصف ایمان ہمیشہ خطرے میں ہی رہتا ہے۔
سڑکوں اور گلی، کوچوں میں پڑے کچرے کے ڈھیر، ہر طرف اُڑتے ہوئے شاپنگ بیگز اور گندگی پھیلاتے ہوئے انسان، دیکھنے کے لیے یہی مناظر باقی رہ گئے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر تو اِس حوالے سے ایک بری مثال بن چکا ہے۔ سنتے ہیں کہ کبھی کراچی کے ساحل صفائی ستھرائی کی مثال تصور ہوتے تھے۔ حکومتی سطح پر ان کی صفائی کا مناسب انتظام ہوتا تھا، یہاں آنے والے بھی صفائی کا دھیان رکھتے تھے۔
آج یہ صورتحال ہے کہ جن احباب نے اپنے طور پر ساحلوں کی صفائی کا بیڑا اُٹھایا تھا، اُنہوں نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ ابھی حال ہی میں معروف کرکٹر وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم کا ایک بیان نظر سے گزرا کہ وہ اب صفائی کے لیے کبھی ساحل کا رخ نہیں کریں گی۔ دراصل وہ کافی عرصے سے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر کراچی کے ساحلوں پر پھیلی گندگی اُٹھانے کا قابلِ تقلید کام کر رہی تھیں۔
لیکن اُن کے مطابق، شہری گندگی پھیلانے سے باز ہی نہیں آتے۔ گویا اب وہ اُکتا گئی ہیں کہ آخر کب تک دوسروں کے پھیلائے گئے کچرے کو اُٹھاتی رہیں۔ پھر ہم شور مچاتے ہیں کہ حکومتیں صفائی کے انتظامات نہیں کرتیں۔ ستھرائی کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن ہر طرف گندگی پھیلانے کو جیسے ہم اپنا فرض سمجھ بیٹھے ہیں۔ مجال ہے۔ جو ہمیں رتی برابر بھی احساس ہو کہ ہم اپنے لیے کیسے کیسے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
سینکڑوں ایسے مقامات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ بہترین اور خوبصورت بڑی بڑی عمارتوں کے باہر ملبے کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ یہ وہ ملبہ ہوتا ہے۔ جو اِن عمارتوں کی تعمیر کے بعد بچ رہتا ہے۔ عمارت پر کروڑوں روپے خرچ کر لیے جاتے ہیں، لیکن چند ہزار دے کر ملبہ نہیں اٹھوایا جاتا۔ یہی صورتحال نو تعمیر شدہ مکانات کے باہر بھی دکھائی دیتی ہے۔ متعلقہ محکمے آنکھیں موندے پڑے رہتے ہیں۔
اگر آج ہمارا ملک ہیپاٹائٹس میں دنیا میں دوسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ تو اس میں قصور ہمارا اپنا ہی ہے۔ اگر ہمارا ملک گردے کے امراض میں دنیا میں آٹھویں نمبر پر کھڑا ہے تو اس کے لیے کسی دوسرے کو مورد الزام کیا ٹھہرانا۔ دل کے امراض ہر سال تین سے چار لاکھ انسانوں کی جان لے جاتے ہیں تو ٹی بی جیسے تقریباً ختم ہو جانے والے امراض پھر سے سر اُٹھا رہے ہیں۔
کبھی غور کیجئے گا کہ امراض میں اضافے کی ایک بڑی وجہ گندگی بھی ہے۔ اس سب کے باوجود مجال ہے، جو ہمیں ذرہ بھر بھی یہ خیال ہو کہ گندگی پھیلا کر ہم اپنے لیے مزید کتنے خوفناک حالات پیدا کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ بویا جائے گا، وہی کاٹا جائے گا، اس تناظر میں ذرا ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم کیا بو رہے ہیں ہم؟
جو کچھ ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں، ہمارے ذہنوں میں بھی وہی سب کچھ رہتا ہے، یہ کوئی ایسی راکٹ سائنس نہیں جس کے لیے دنیا کے معروف لوگوں کے اقوال نقل کیے جائیں۔ یوں بھی ہمارے لیے حضور اکرمﷺ کے فرمان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ طیب (پاک صاف) ہے اور پاکی کو پسند فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ سخی ہے اور جود و سخا کو پسند کرتا ہے۔
لہٰذا پاک صاف رکھو اپنے گھروں کے صحنوں کو اور گھروں کے سامنے میدانوں کو اور یہود سے مشابہت نہ اختیار کرو (جامع ترمذی:2799)۔ اس کے بعد بھی صفائی کے حوالے سے کوئی ابہام باقی رہ جاتا ہے؟ ہم نے شاید تہیہ کر رکھا ہے کہ کسی اچھی بات پر عمل ہی نہیں کرنا حالانکہ گلی کوچے صاف تو ذہن بھی شفاف۔ گلی کوچے صاف تو امراض سے بھی نجات اور اس پر کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔ ہم یہ تو کر ہی سکتے ہیں کہ کم از کم خود کو گندگی پھیلانے سے باز رکھیں۔
پھینکنے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، مغربی ممالک میں اگر کوئی پالتو کتا کہیں گندگی پھیلا دے تو اُس کا مالک اس گندگی کو صاف کرنے کا سامان اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ یہ بھی سنتے ہیں کہ اگر کوئی غیر ملکی سیاح کبھی جاپان جائے تو سب سے پہلی چیز جو اُسے حیران کرتی ہے، وہ وہاں صفائی ستھرائی کی صورتحال ہوتی ہے۔ یقینا یہ سب کچھ خود سے نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے پوری پوری اقوام کی مستقل بنیادوں پر بھرپور کاوشیں ہیں۔
جاپان میں سکولوں کے اوقات ختم ہونے کے بعد طالبعلموں کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ کلاس رومز کی صفائی کریں، پرائمری کلاسوں سے لے کر ہائی سکول تک، تعلیم کے 12سالوں کے دوران اپنی درسگاہ میں صفائی ستھرائی کرنا تمام طالبعلموں کا معمول رہتا ہے۔ صفائی کے اسباق تعلیمی نصاب میں بھی شامل ہیں۔ اسی طرح وہاں محلے دار باقاعدگی سے اپنے علاقوں میں صفائی کے فیسٹیول منعقد کرتے ہیں۔
یہ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ 2014ء میں جب جاپان کی فٹبال ٹیم ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے برازیل گئی تو میچ ختم ہونے کے بعد جاپانی کھلاڑی سٹیڈیم کی صفائی کے لیے رک جاتے تھے۔ یہ تو خیر ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہیں، اگر کبھی آپ کا سری لنکا جانا ہو تو وہاں بھی صفائی کی صورتحال بہت مثبت تاثر چھوڑتی ہے۔ آج بھی ہمارے ہاں وہی عالم دکھائی دیتا ہے۔
جو صدیوں پہلے ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ ہندوستان میں تحریر کیا تھا۔ مشہور زمانہ سیاح تحریر کرتا ہے کہ اُس نے ہندوستان میں ہر طرف گندگی پھیلی ہوئی دیکھی، ایک دکان میں ریشم فروخت ہو رہا ہوتا ہے، تو ساتھ والی دکان میں کوہلو سے تیل نکالا جا رہا ہوتا ہے۔ آج بھی دیکھ لیں کہ کیا اس صورتحال میں کوئی زیادہ فرق دکھائی دیتا ہے؟
شاید ہم گندگی کے خوگر ہو چکے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ کم از کم مستقل قریب تک اس حوالے سے کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئے گی اور ہم اسی طرح گندگی پھیلانے کی عیاشی سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔