1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Zulfiqar Ali Bhutto Banam Bilawal

Zulfiqar Ali Bhutto Banam Bilawal

ذوالفقار علی بھٹو بنام بلاول

لیڈرز محلہ

عالم بالا

میرے پیارے نواسے! مجھے خبر ملی ہے کہ تم آجکل میدان سیاست میں بڑی تیزی سے اپنی جگہ بناتے جا رہے ہو اور عالم بالا میں تو آجکل یہ بھی مشہور ہے کہ اسٹبلشمینٹ کو اگلا وزیر اعظم تم میں نظر آ رہا ہے۔ اور یہ تو حقیقت ہے کہ اسٹبلشمینٹ کو جو نظر آئے سب کو وہی دیکھنا پڑتا ہے چاہے وہ اس کی صلاحیت و قابلیت رکھتا ہو یا نا رکھتا ہو۔

مجھے یہ سن کر بھی خوشی ہوئی کہ تم نے پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر لی یا انھوں نے تمہیں نکال دیا جو بھی ہوا۔ تحریکیں ضرور سر گرم ہونی چاہئیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ غیر جمہوری ارادوں سے پاک ہوں۔ اور آجکل ایسا ممکن نہیں کیونکہ حواس اقتدار اس قدر بری چیز ہے کہ یہ تمام تر اخلاقیات و جمہوری اقدار کو چھوڑ کر اپنا مفاد حاصل کرنے کی طرف رغیب کرتی ہے۔

تمہیں یاد ہونا چاہیے میرے خلاف بھی ایک تحریک چلی تھی جو آخر میں میری پھانسی تک جا پہنچی۔ اس وقت بھی جمہوریت ہاری تھی اور غیر جمہوری قوتیں جیتی تھیں اور ایسا اس ملک میں بارہا ہوا ہے اس لیے میرا مشورہ یہی ہے کہ ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں سے دور رہنا۔ میں جانتا تو ہوں کہ ماننا تو تم نے اپنے باپ کا مشورہ ہے جو کہ ہمیشہ تمہارے لیے نقصان دہ ہو گا مگر پھر بھی بطور نانا یہ میرا حق بنتا ہے۔

تمہارے والد آصف زرداری سے مجھے بہت سے شکوے ہیں جن کا یہاں عالم میں بالا میں تمہاری نانی نصرت بھٹو اور تمہاری ماں بے نظیر سے بھی میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں۔ سب سے بڑا شکوہ تو یہ کہ میری جماعت کو جو جماعت اسلامی کے بعد اس ملک کی بڑی جماعتوں میں سب سے پرانی جماعت ہے کو تمہارے والد نے کرپشن سے اس قدر بدنام کیا ہے کہ اب کوئی شریف آدمی بھی اس میں شامل ہو تو اسے کسی اور نظر سےدیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ اس جماعت میں بہت سے معتبر اور جمہوریت پسند لوگ بھی بھی موجود ہیں جیسے رضا ربانی اور اعتزاز احسن ہو گئے اس کے علاوہ مخددم سید احمد محمدد، قمر زمان کائرہ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سے موجود ہیں۔

پچھلے دنوں جہانگیر بدر اور مخدوم امین فہیم ملنے آئے تو کہہ رہے تھے کہ ہماری جماعت کے بہت سے امیدوار تو آصف زرداری کی تصویر اپنے پوسٹرز پر نہیں بناواتے کہ کہیں ووٹ کم نا ہو جائیں۔ پنجاب میں کس قدر بری حالت ہو گئی ہے میری اس جماعت کی جو میرے وقت پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہوا کرتی تھی۔

میرے پیارے نواسے تمہیں برا تو لگے گا مگر جب میں یہ جملہ سنتا ہوں کہ آصف زرداری سب پے بھاری تو یقین مانو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ میرا داماد صرف اس لیے سب پے بھاری ہے کہ وہ سب کو پیسے دے کر خرید لیتا ہے کاش کہ وہ سیاسی ساکھ کی وجہ سے سب پے بھاری ہو پاتا۔

بلاول تمہیں معلوم ہو گا کہ جب مجھے پھانسی دے دی گئی تو تمہارے دونوں ماموں میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے الذولفقار کے نام سے سے ایک تنظیم بنائی جس کا مقصد میرے مخالفوں سے میری شہادت کا بدلا لینا تھا۔ جس تنظیم سے بعد میں گجرات والے چوہدری ظہور الٰہی بھی قتل ہوئے جس کا مجھے دکھ ہوا۔ بہر حال شاہنواز بھٹو کو تو پہلے ہی قتل کر دیا گیا مگر جس چیز کا مجھے شدید دکھ ہے کہ میری جماعت کا اصل ورث تو میر مرتضیٰ بھٹو اس وقت قتل کر دیا گیا جب اس کی بہن یعنی تمہاری ماں ملک کی وزیر اعظم تھی۔ میں اکثر بے نظیر سے بھی شکوہ کرتا ہوں کہ مجھے تم سے اس بات پر ہمیشہ نارضگی رہے گی کہ تم ملک کی سربراہ تھی وزیراعظم تھی اور تمارے سگے بھائی کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ کیا تم اتنی بے خبر وزیراعظم تھی؟

اور مجھے تو بہت سے عزیزوں نے یہ پیغام بھی پہچایا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں آصف زرداری کا کسی حد تک ہاتھ تھا۔ جانتا تو میں شروع سے ہوں کہ میر مرتضیٰ آصف زرداری کو نا پسند کرتا ہے اور ایک دفعہ اس کی موچیں بھی میر مرتضیٰ نے کٹوا دی تھی۔ اور بے نظیر نے بھی مجھے بتایا کہ زرداری اکثر میر مرتضیٰ کی شکایت مجھ سے کیا کرتا تھا۔ میر مرتضیٰ تو اپنی تقریروں میں بھی زرداری کو بہت کچھ کہا کرتا تھا۔

بہر حال فوزیہ وہاب بتا رہی تھی کہ تم امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے ہو۔ بیٹا یہ بات یاد رکھنا کہ جس نانا کی جماعت کے تم آج وراث ہو اس تمہارے نانا نے کسی کی غلامی قبول نا کی اور آخر کار بیرونی طاقتوں سے یہ تک سنا کہ " ہم تمہیں نشان عبرت بنا دیں گئے" جس میں شاید وہ اس وقت کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ لیکن میں اپنی بات پر قائم رہا اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رکھا۔ یاد رکھنا تم کہیں ان کی پیروی نا شروع کر دینا۔ اور والد کے نقش قدم پر نا چل پڑنا۔

مجھے اس قدر شرم آئی جب میں نے سنا کہ امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما نے کتاب لکھی جس میں آصف زرداری کے بارے میں وہ لکھتا ہے کہ جب ہم نے ایبٹ آباد آپریشن کیا اور اسامہ بن لادن کو مار گرایا تو میں اس سارے واقعہ کے بعد پریشان تھا کہ پاکستان کی قیادت کو کیسے اعتماد میں لوں کیونکہ وہ ہمارے اتحادی ہیں اور ہم نے ان سے پوچھے بغیر ان کے علاقے میں آپریشن کیا تو ظاہر ہے وہ ناراض ہوں گئے مگر میری ساری پریشانی ختم ہو گئی جب میں نے صدر زرداری کو ٹیلیفون کیا تو ان کا پہلا جملہ تھا کہ مبارک ہو آپ نے اسامہ کو مار گرایا۔

میرے پیارے نواسے تمہیں چاہیے کہ سب سے پہلے تم سندھ پر توجہ دو کیونکہ وہاں تمہارے پاس اختیارات ہیں تمہاری صوبائی حکومت ہے۔ اگر وہاں تم کام نہیں کروا سکو گئے اگر وہاں سڑکوں پے کچرا ہو گا کراچی جیسا شہر پانی سے ڈوبا ہوگا اندرون سندھ کتا کٹنے کی ویکسین نہیں میسر ہو گئی اور بہت سی جگہوں پر پینے کا پانی نا ملے گا اور تھر میں بچے بھوک سے مر رہے ہوں گئے تو دوسرے صوبوں کے لوگ کس بنیاد پر تمہیں ووٹ دیں گئے۔

کچھ دن پہلے میں نے قومی اسمبلی میں کی گئی مخدوم سید احمد محمود کے بیٹے سید مصطفی محمود کی تقریر سنی جو کافی متاثر کن اور آج کل کی سیاسی لڑائیوں سے بالا تر تھی۔ اس قسم کے نوجوانوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔ نا کہ قادر پٹیل اور آغا رفیع اللہ جیسوں کو جو پارٹی کا امیج خراب کریں۔

بیٹا یہ بات یاد رکھنا اس بے رحم سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اور سیاست میں کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دشمن کل کے دوست۔ یہ سب چلتا رہتا ہے مگر جہاں غیرت کی بات ہو وہاں میرے نواسے ہونے کا ثبوب دینا۔ مفاہمت ضروری ہوتی ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ انسان اپنی عزت نفس کا ہی خیال نا کرے۔

اگر تمہیں یاد ہو کہ تمہاری ماں اور نانی کے ساتھ مسلم لیگ ن نے نوے کی دہائی میں کیا کیا نہیں کیا۔ جہازوں سے گندی تصویریں پھنکی طرح طرح کے الزامات لگوائے۔ لاہور میں ان کا ایک باقاعدہ دفتر تھا جس میں یہ سارے منصوبے تیار کیے جاتے تھے۔ اس دفتر کا ہیڈ پرویز رشید تھا جو آج کل مریم نواز کے ساتھ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ لہذا اس جماعت کی قربت عالم بالا میں موجود تمہارے بڑوں کو کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اور ویسے بھی یہ جماعت اس شخص کی پروان چڑائی ہوئی ہے جس نے تمہارے نانا کو پانسی پر لٹکایا (یعنی جنرل ضیاءالحق)۔

نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ اکثر یہاں ملاقات ہو جاتی ہے اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بھی جمہوریت پسند تھا نوابزادہ نصراللہ خان نے بھی ساری زندگی جمہوریت کے لیے وقف کر دی۔ کل ملے تھے تو بتا رہے تھے کہ کشمیر کے الیکشن کچھ دنوں تک منعقد ہونے والے ہیں۔ اسی سلسلے میں کشمیر میں ایک جلسے میں ایک وفاقی وزیر نے مجھے غدار کہہ کر پکارا ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ وہی موصوف ہے جس کی گاڑی سے شہد پکڑا گیا تھا۔ بہر حال ایسے لوگوں کو جواب دینا مناسب تو نہیں ہوتا مگر پھر بھی کہنا چاہوں گا کہ آئین کو توڑنے والے غدار کہلاتے ہیں نا کہ آئین بنانے والے۔ میں نے اس ملک کو آئین دیا اس کے ایٹمی پروگرام پر کام شروع کروایا تاکہ اس کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کے نا دیکھ سکے۔ اتنا کچھ کرنے بعد بھی میں ہی غدار ٹھہرا۔ یہ مجھ پر جس چیز کا الزام لگاتے ہیں کہ میں نے ملک کو دو ٹکرے کیا تو ان کو یہ چیز نظر نہیں آتی کے سارے آختیار تو فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کے پاس تھے۔ اس کے بعد کیا ان کو نظر نہیں آتا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کی وفاداری کس طرف تھی اور راء سے ان کے کیا تعلقات تھے۔ میں مانتا ہوں کہ شیخ مجیب الرحمٰن واضع الیکشن جیت چکا تھا لیکن اختیارات منتقل کرنا کیا میرا کام تھا؟ یا جنرل یحیٰی خان کا؟ اس لیے مجھے غدار کہنے سے پہلے جنرل یحیٰی خان، جنرل نیازی اور شیخ مجیب الرحمٰن جیسے کرداروں کی طرف بھی دیکھو جو اس کے اصل ذمہ دار تھے۔

میں سارے سیاستدانوں کو یہی کہوں گا کہ خدارا یہ غداری کے سرٹیفکٹ دینا بند کریں اور اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔ ہم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں اور اسی دوران کوئی آمر سر اٹھا لیتا ہے اور پھر ہم سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہے خدارا ان آمرانہ روایوں کو ختم کرو اور جمہوری سوچ کو پروان چڑھاؤ اسی میں سب کی بقا ہے۔

میرے پیارے نواسے بلاول میں یہی اپنی بات کا اختتام کروں گا۔ باتیں تو بہت کرنے کو ہیں لیکن تم آزاد کشمیر کی الیکشن کیمپین میں مصروف ہو گئے۔ لہذا کچھ نصیحتیں جو رہ گئی ہیں وہ اگلے خط کے لیے رکھ لیتے ہیں۔

عالم بالا سے تمہارے سارے عزیزوں کی طرف سے تمہیں بہت سا پیار وسلام۔

تمہارا نانا

ذوالفقار علی بھٹو

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz