1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Youthiya, Patwari Aur Jiyala

Youthiya, Patwari Aur Jiyala

یوتھیا ، پٹواری اور جیالہ

شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا تعلق اگر تحریک انصاف سے ہو تو ان کو سیاسی زبان میں یوتھیا، نواز لیگی ہو تو پٹواری جبکہ پیپلز پارٹی والوں کو جیالہ کہا جاتا ہے۔ یہ خطابات آجکل کے سوشل میڈیا کے دور میں سیاسی کارکن مخالف پارٹی کے سپوٹرز کو تنگ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں اکثریت ان کی ہے جو ہواؤں کے ساتھ رنگ بدلتے رہتے ہیں اور حالات کو دیکھتے ہوئے یو ٹرن لیتے رہتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو پیدا ہونے سے لے کر مرتے دم تک ایک ہی گروہ کے حامی رہتے ہیں۔ اور کسی دوسرے گروہ کو سپورٹ کرنا توہین سمجھتے ہیں۔ چاہے پھر ان کے لیڈر کی سمت غلط ہی کیوں نا ہو وہ اپنے لیڈر کا دفاع کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ حالانکہ میرے خیال میں یہ کسی حد تک غلامی والی ذہنیت ہے جو انگریز سرکار ہمیں واثت میں دے گئ تھی۔ انگریز سرکار کا وہ سبق کچھ لوگ ابھی تک پڑھتے آ رہے ہیں۔

ان تینوں سیاسی کارکنان کے نمائندے (یعنی یوتھیا، پٹواری اور جیالہ) جو کہ دوست بھی ہیں ایک نامعلوم مقام پر سیاسی بحث میں مصروف ہیں اور اپنے اپنے لیڈروں کا دفاع کر رہے ہیں آج کا کالم ان کے مکالمے پر ہی مشتمل ہے۔

پٹواری: (ہنسی روکتے ہوئے) ہاں بھائی سنائیں تبدیلی کے مزے آ رہے ہیں۔ پیٹرول اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا۔ اب تو بائیک یا گاڑی پر سفر کرنے کو بھی دل نہیں کرتا۔ مہنگائی اس قدر ہو چکی کے جو چیز ہمارے لیڈر میاں محمد نواز شریف کے دور میں پچاس روپے میں دستیاب ہوتی تھی اب وہ سو سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ یہ نیازی ملک کو کس طرف لے کر جا رہا ہے۔ اب ہمارا لیڈر یاد تو آتا ہو گا؟

یوتھیا: بلکل یاد آتا ہے آپ کا لیڈر لیکن صرف اس وجہ سے کہ وہ اس ملک و قوم کا پیسہ لوٹ کر باہر جا بیٹھا ہے۔ معلوم نہیں خدا اس کو کب ایمان دے گا اور وہ لوٹ مار کی دولت جو اس ملک کی غریب عوام کے ٹیکس سے اکھٹی ہوتی ہے واپس کر کے اس قوم پر احسان کرے جس قوم نے اسے تین دفعہ ملک کا وزیراعظم بنایا۔ اور رہی بات مہنگائی کی تو وہ ہم مانتے ہیں کہ ہوئی ہے اس کا انکار ممکن نہیں مگر اس کی وجوہات اگر معلوم کی جائیں تو بات آپ کے لیڈروں تک ہی پہچتی ہے۔ جو انھوں نے اس ملک پر بے پناہ قرض چڑھایا تھا اسے اترنے کی خاطر ملک و قوم کو یہ مشکل وقت دیکھنا پڑ رہا ہے۔

جیالہ: یہ پی ٹی آئی والوں نے آسان حل نکالا ہوا ہے کہ جو بات بھی ہو پچھلی حکومت پے ڈال دو۔ بھائی اب تین سال سے اوپر کا عرصہ ہو چکا ہے کوئی کام کر کے بھی دیکھاؤ۔ اب پاکستانی قوم ٹرک کی اس بتی کے پیچھے لگنے والی نہیں اب بہت ہو گیا۔ آئندہ الیکشن میں جو تمہاری جماعت کا حال ہو گا وہ تاریخ دیکھے گی۔ بالکل جس طرح مشرف کے جانے کے بعد ق لیگ کے ساتھ ہوا تھا ۲۰۲۳ء میں پی ٹی آئی بھی دوسری ق لیگ کی شکل اختیار کر لے گئ۔ جو تبدیلی کا نام استعمال کر کے آپ نے اس ملک کی عوام کے ساتھ کیا ہے اس کا حساب جلد آپ کو دینا ہو گا!

یوتھیا: تم لوگ یہ عوام کو بے وقوف بنانے والی باتوں پر ذرا سا بھی اپنے گریبان میں نہیں جھنکتے؟ چار باریاں روٹی کپڑا اور مکان کے نام پے پیپلزپارٹی لے چکی ہے جبکہ تین باریاں میاں صاحب لے چکے ہیں۔ پچھلے پینتیس سال سے یہی تو ہوتا رہا ہے پہلے ایک باری لیتا اور دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹتا پھر دوسرا آ جاتا۔ تیس پنتیس سال یہ سلسہ چلتا رہا اور اس ملک پر آپ نے حکمرانی کی اور قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کام، کام اور صرف کام کو تبدیل کر کے کرپشن کرپشن اور صرف کرپشن بنا دیا!

پٹواری: کرپشن کی بات کر کون رہا ہے جس کی کابینہ میں خسرو بختیار، غلام سرور خان اور مونس الہی بیٹھا ہے۔ کرپشن کی بات وہ کس منہ سے کر رہا ہے جس کے لیڈر کے دوستوں میں چینی چور جہانگیر ترین، دوائی چور عامر کیانی اور فیصل ووڈا جسے لوگ شامل ہیں جس کا نام پنڈورا بکس میں آیا ہے۔ ہمارے لیڈروں کے نام پانامہ میں آئیں تو وہ ناجائز اور ان کے ساتھیوں کے آجائیں تو وہ پاک صاف۔ یہ دہرا معیار آپ کی سمجھ میں نا بھی آتا ہو تو عوام کی سمجھ میں ضرور آتا ہے۔

جیالہ: میرے بھائی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے ہی اس ملک کو آئین دیا اور ہر ملٹری ڈکٹیٹر کی مخالف کر کے اس ملک میں ہمیشہ جمہوریت کے لیے راستہ ہموار کیا۔ جمہوریت کے بہادر سپاہی آپ کو صرف پی پی پی میں ہی نظر آئیں گے اور کسی جماعت میں آپ کو رضا ربانی اور اعتراض احسن جیسے لوگ نظر نہیں آئیں گے کہیں زبان دراز شہباز گل ہے تو کہیں فواد چوہدری، کہیں فیاض الحسن چوہان ہے تو کہیں مراد سعید اور طلال چوہدری ان جیسے لوگوں کا ہی اب سیاست پے راج ہے جنہوں نے سیاست جیسی عبادت کو گالی بنا کر رکھ دیا ہے۔

یوتھیا: عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جو اپنی محنت سے یہاں تک پہچا ہے ۲۲ سال خان صاحب نے دن رات ایک کر کے محنت اور لگن سے کام کیا اور عوام میں تبدیلی کا شعور پیدا کیا اور پھر ایک دن آیا جب اللہ تعالیٰ نے خان صاحب کو کامیاب کیا اور انہیں ان کی محنت کا پھل دیا۔ عمران خان نواز شریف کی طرح جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق کی گود میں بیٹھ کر نہیں آیا اور نا ہی بھٹو کی طرح جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کہہ کر اس مقام تک پہچا۔ شیخ رشید بالکل درست کہتا ہے یہ سب جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہیں!

پٹواری: ہم ہوں نا ہوں شیخ رشید جی ایچ کیو کے جس گیٹ کی پیداوار ہے وہ سب جانتے ہیں۔ یہ وہی شیخ رشید نہیں جس کے بارے میں عمران خان کہا کرتا تھا کہ اس کو چپڑاسی بھی نا رکھوں آج اسے وزیر داخلہ بنایا ہوا ہے۔ اور یہ نیازی ایم کیو ایم کے بارے میں کیا کہتا تھا کہ یہ دہشتگرد جماعت ہے اور آج ان کو اتحادی بنا کر اہم وزارتیں دے رکھی ہیں۔ اور تو اور جسے یہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا کرتے تھے اسے اسپیکر پنجاب اسمبلی اور اس کے بیٹے کو اپنی کابینہ میں شامل کر رکھا ہے یہ ان کی حالت ہے۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ہماری مخالفت میں کچھ قوتوں نے کس قدر نااہل کو لا کر پاکستان پر مسلط کر دیا گیا ہے۔

جیالہ: ہم تو کہتے رہ گئے کہ آؤ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لے آتے ہیں نمبرز پورے کرنا مفاہمت کے بادشاہ کا کام ہے مگر تم لوگ اس بات پر نا آئے۔ پنجاب میں ان کو گرا دیتے تو مرکز میں یہ خودبخود کمزور ہو جاتے اور مرکز میں تو یہ صرف پانچ سات ووٹوں کی مار ہیں۔ لیکن نہیں ن لیگ کو تو بس ہماری پولیسی سے اختلاف کرنا ہوتا ہے۔ اعتزاز احسن بالکل درست کہتے ہیں نواز لیگ پے کسی صورت اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ ہمیشہ سے دھوکہ دینے کے عادی ہیں۔

پٹواری: یہ بھی ٹھیک ہے دھوکہ خود دیں اور الزام دوسروں پے لگا دیں۔ پچھلے سینٹ الیکشن میں آپ نے ہمیں ناکام کروایا ہمارے بندے خریدے اس کے باوجود ہم نے آپ سے ہاتھ ملا لیا مگر اس سینٹ الیکشن میں جو آپ نے ہمارے ساتھ کیا وہ قابل برداشت نہیں تھا۔

آپ نے تو احمد فراز کا فقرہ سچ کر دیکھیا کہ: "دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا"

یہ کون سی اپوزیشن ہے کہ سرکاری سنیٹرز ساتھ ملا کر اپوزیشن لیڈر کی کرسی پر جا بیٹھے۔ اور ہمارے ساتھ وعدہ خلافی کی۔ اتنا سب ہو جانے کے بعد اب آپ کے ساتھ چلنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی فیصلہ ہم نے مولانا صاجب پر چھوڑ دیا۔ وہ انصاف پسند اور اصول پسند سیاستدان ہیں انہوں نے بھی آخرکار ہماری آواز پر لبیک کہا۔

جیالہ: وہی انصاف پسند مولانا جو ہمارے سرکاری ووٹ لینے پر اعتراض کر رہے تھے ابھی اسی سرکاری اتحادی جماعت کے ساتھ مل کر بلوجستان کی حکومت میں بیٹھ گے ہیں۔ اب وہ انصاف اور معیار کہاں گیا؟

یوتھیا: یار اس مولانا کی کیا بات کرتے ہو اس نے اسلام کا نام لے لے کر جو عوام کو بےوقوف بنایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسلام کا نام لے کر ہر حکومت میں شامل ہو جاتا تھا شکر ہے کپتان نے آکر اس کا راستہ روکا۔ اس کے معیار کی کیا بات کرتے ہو یہ تو عورت کی حکمرانی کو حرام قرار دیتا تھا یہ تو نواز لیگ کو غدار جماعت کہتا تھا اور اسے ڈیزل کا خطاب بھی محترم خواجہ محمد آصف نے دیا تھا۔ آہ! یہ سیاست کتنی بے رحم چیز ہے یہ انسان سے کیا کیا کرواتی ہے۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

پٹواری: مولانا صاحب عزت کے قابل ہیں۔ یہ ان کے والد (مفتی محمود) ہی تھے جنہوں نے ۱۹۷۳ء کے آئین میں قادیانیوں کو کافر کرار دینے کے لیے آواز اٹھائی۔ ان کے والد کا مسلمانوں پر یہ بہت بڑا احسان ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اور آپ نے تو قادیانیوں کو حکومتی اعلیٰ عہدے تک دینے کی کوششیں کی۔ مولانا آپ لوگوں کو صرف اس لیے برے لگتے ہیں کیونکہ وہ ان طاقتوں کے اشاروں پر چلنے سے گریز کرتے ہیں جو آپ کے بڑے ہیں اور جو آپ کو یہاں تک لے آئے ہیں اور شاید اپنے اس کیے پر شرمندہ بھی ہوں۔

یوتھیا: میرے بھائی تاریخ میں ختم نبوتﷺ پہ اگر کسی لیڈر نے کھل کر بات کی ایک تو وہ عمران خان صاحب ہی ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں ساری دنیا کے سامنے حضور نبی کریمﷺ کی شان بیان کی اور اسلام کی بات کی اور اسلام دشمنوں کو قرارا جواب دیا۔ اور یہ پہلا لیڈر ہے جس نے ریاست مدینہ کی طرز پے ریاست بنانے جیسے خیالات کا اظہار کیا۔

جیالہ: ہم اس بات پر بطور اپوزیشن مولانافضل الرحمٰن اور نواز لیگ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں کہ اس نا اہل حکومت کو فارغ کر کے نئے انتخابات کروائے جائیں تاکہ ملک پر مسلط اس نا اہل ترین حکومت سے ہماری جان چھوٹے۔ اس نیازی نے کہا تھا میں غربت ختم کروں گا جو مہنگائی کی صورت حال ہے اس سے غربت تو نہیں مگر غریب ضرور ختم ہو جائیں گے۔ کیونکہ اس مہنگائی میں غریب آدمی کا زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

یوتھیا: آپ بہر حال جو بھی کہہ لو کپتان ایک دن ضرور ان سب چیزوں پر قابو پا لے گا اور نئے اور خوشحال پاکستان کا خواب پورا کر کے رہے گا۔ خان جب کرکٹ میں تھا تب بھی لوگ اسے ناکام تصور کرتے تھے مگر تاریخ نے اسے کامیاب ثابت کیا اور اس کے بعد نمل یونیورسٹی اور سب سے بڑھ کر شوکت خانم میموریل ہسپتال جو دنیا کا واحد فری کینسر ہسپتال ہے کو جب عمران خان نے شروع کروایا تو سب نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا لیکن اس نے کر کے دیکھایا۔ لوگ ہنستے تھے جب کپتان کہتا تھا میں ایک دن وزیراعظم بنو گا مگر اس نے ثابت قدم رہتے ہوئے محنت کی اور آخر کار سرخرو ہو کر دیکھایا اور اب بھی أنشااللہ کامیاب ہو گا اور عوام کو مضبوط اور بہتر پاکستان بنا کر دیکھائے گا۔ اور ریاست مدینہ کا خواب پورا کرے گا۔

اسی دوران ایک پڑھے لکھے بزرگ ان کی محفل میں شامل ہوتے ہیں اور گفتگو کا موضوع سن کر ان کو ایک نصیحت کرتے ہوئے انور مسعود کی بات دہراتے ہیں کہ بیٹا:"A common man have no right to discuss politics"

سیاست کے کھیل میں جو بھی آتا ہے ان جیسا ہی ہو جاتا ہے جو اس کھیل میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ تیس پینتیس سال مشرف اور نواز و زرداری وغیرہ بھی تو برداشت کیے ہیں اب کچھ عرصہ اس کھلاڑی عمران کو بھی دیکھ لو شاید کچھ کر دیکھائے۔ ہمیشہ اچھے کی امید ہی رکھنی چاہیے۔

تینوں خاموشی سے بزرگ کی اس بات پر غور کرنے لگ جاتے ہیں اور محفل اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Shahbaz Ki Parwaz

By Tayeba Zia