Sab Mil Kar Mafi Mangen
سب مل کے معافی مانگیں

آجکل سینیئر صحافی و ممتاز قلم نگار جناب سہیل وڑائچ صاحب کے کالمز کے ہر طرف چرچے ہیں جو موصوف نے فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر سے برسلز میں ملاقات کے بعد تحریر کیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف کی کسی بھی صحافی سے یہ باقاعدہ پہلی ملاقات تھی جو کہ دو گھنٹے تک جاری رہی۔ ملاقات میں بہت سی باتیں ہوئیں جو سہیل صاحب نے اپنے کالمز میں تحریر کی ہیں۔ لیکن جس بات کے چرچے ہیں وہ یہ تھی کہ "سیاسی مصلحت کے لیے معافی مانگی جائے اور وہ بھی دل سے معافی مانگی جائے"۔
اپنے دوسرے کالم میں سہیل وڑائچ صاحب نے خود کو جمہوری پیش کرتے ہوئے قیدی نمبر 804 کو مشورہ دیا کہ جناب اِسی میں آپ کی عافیت ہے کہ آپ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کی طرح کسی طرح اسٹیبلشمنٹ سے صلح کر لیں اور اپنے مستقبل کی راہ کو ہموار کریں اور ذوالفقار علی بھٹو کی مثال دے کر یہ بھی باور کرایا کہ آپ پہلے لیڈر نہیں جو اتنے پاپولر ہیں ذوالفقار علی بھٹو بھی آپ جتنے ہی پاپولر تھے لیکن ان کا انجام اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے بعد کیا نکلا یہ سب بخوبی جانتے ہیں۔
بنیادی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی سیاستدان ہوں یا پھر مقتدر حلقے ہوں کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں سب اپنے اپنے مفادات کی خاطر ماضی میں اچھے برے کی تمیز آئینی اور غیر آئینی کاموں کی تمیز بھولتے رہے ہیں۔ اگر یہ معافی کا سلسلہ شروع ہی کرنا ہے تو کیوں نہ یہ جرنل ایوب خان سے شروع کیا جائے جنہوں نے اس ملک کا آئین توڑا اور سکندر مرزا کے ساتھ مل کہ اس آئین شکنی کی بنیاد رکھی۔ پھر جنرل آغا یحییٰ خان نے اس ملک کا آئین توڑا اور ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پھر جنرل ضیاء الحق نے اس ملک کا آئین توڑا اور اُس وقت کے سب سے پاپولر ترین لیڈر کو ایک بے جان مقدمے میں پھانسی پر چڑھا دیا پھر جنرل پرویز مشرف نے اس ملک کا آئین توڑا اور ایک جمہوری حکومت کو چلتا کیا دوسری دفعہ ایمرجنسی نافذ کرکے ایک دفعہ پھر ملک کے آئین کو پاش پاش کیا اور نواب اکبر خان بگٹی جیسے بڑے سیاسی رہنما کو شہید کروایا اس کے علاوہ ان چاروں ملٹری ڈکٹیٹرز کی آئین شکنی کی فہرست اتنی لمبی ہے جس کے لیے الفاظ کم پڑ جائیں گے۔ وہ چاروں تو اس وقت اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہیں لیکن جس ادارے کی مدد سے انہوں نے یہ آئین شکنی کی کیا انہیں اپنے سربراہاں کی ان آئین شکنیوں پر معافی نہیں مانگنی چاہیے یا ان کے خاندانوں کو معافی نہیں مانگنی چاہیے۔
اگر معافی مانگنے کی بات ہے تو کیا میاں نواز شریف معافی مانگنے کے حقدار نہیں جنہوں نے بار ہا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف سازشیں کی اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے کیا کیا نہ کیا۔ کس طرح 90 کے الیکشن میں آئی جے آئی بنوائی گئی اور کس طرح پیسے بانٹے گئے یہ سب تو تاریخ کا حصہ ہے جنرل حمید گل کے انٹرویوز بھی موجود ہیں۔ پھر جب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی ہوتی تو یہ یہاں تک کہتے کہ یہ فوجی جرنیل اس ملک کو تباہ کر چکے ہیں یہ ملک کو تباہ کریں اور نواز شریف آ کر اس ملک کو سنوارے؟
کیا فوج کے خلاف اس قدر سخت باتیں کرنے پر اور خاص کر فوج سے بھی بڑے ادارے سپریم کورٹ آف پاکستان پر حملہ کرنے پر کیا میاں نواز شریف اور اس کی جماعت کو معافی نہیں مانگنی چاہیے؟ یہی بات ہے تو پھر آصف علی زرداری کتنی معافیاں مانگنے کے حقدار ہیں جو فوج کے چیف کے خلاف یہ تک کہا کرتے تھے کہ تم تو دو تین سال کے لیے ہو ہم نے یہاں ساری زندگی رہنا ہے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کرتے تھے اگر انہوں نے کبھی معافیاں مانگی تو اندرون خانہ مانگی قوم کے سامنے کیا یہ معافی مانگنے کے حقدار نہیں ہیں؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نو مئی کا واقعہ پاکستانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین واقعہ ہے اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جو جو اس جرم میں ملوث ہیں ان کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے۔ لیکن یہ تو انصاف کا کوئی تقاضا نہ ہوا کہ ایک طرف عدالتی نظام اور حکومتوں نے ملی بھگت کرکے عمران خان اور اس کی ساری جماعت کو نو مئی کے کیسز میں سزائیں دلوا دیں اور دوسری طرف جو پریس کانفرنس کرکے پارٹی چھوڑتا رہا وہ اس سزا سے بری الذمہ ہوتا رہا یہ کون سا اصول ہے کہ ایک آدمی جب ایک جرم کرتا ہے تو اس کو صرف ایک پریس کانفرنس پر اس جرم سے بری الزمہ کر دیا جاتا ہے۔
یہ نظام پورے پاکستان نے دیکھا کہ جو پریس کانفرنس کرکے پارٹی چھوڑ دیتا وہ سزاؤں سے بچ جاتا اور جو پارٹی میں رہتا اس پر ایک نہیں درجنوں مقدمات بنا دیے جاتے اور اب یہ معافی کی بات بھی اسی کا تسلسل ہے یعنی یہ کیسا اصول ہوا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا اور دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ صرف سچے دل سے معافی مانگ لیں تو آپ ان سارے کیسز سے آزاد ہو جائیں گے اور آپ کے راستے ہموار ہو جائیں گے۔
یعنی اس بات سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ انا کی تسکین کے لیے معافی مانگنے کی بات کی جا رہی ہے معافی والی یہ بات کرکے تو آپ لوگ خود نو مئی کے مقدمے کو کمزور کرتے جا رہے ہیں جو پہلے سے ہی ایک کمزور مقدمہ ہے۔
میں سمجھتا ہوں دونوں طرف سے معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ معاملات جس حد تک جا چکے ہیں اور انا کی تسکین کا جو مسئلہ بن چکا ہے اس انا کی تسکین کو پاکستان کی خاطر ختم کر دینا چاہیے۔
سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنی غلطیوں پر قابو پا کر پاکستان کے بہتر مستقبل کے بارے میں سوچیں اور مقتدر حلقوں کو بھی چاہیے کہ جو بیان وہ صرف کیمرے کے سامنے دیتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اس کو عملی طور پر کرکے دکھائیں۔
عمران خان صاحب کو بھی چاہیے کہ اسے انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور مصلحت کے ساتھ اس کا کوئی حل نکالیں آپ اس وقت ملک کے پاپولر ترین لیڈر تو ضرور ہیں لیکن آپ کو بھی اپنا ماضی یاد کرنا ہوگا کہ کس طرح جنرل پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام نے 2014 کے دھرنے کروائے اور کس طرح پھر 2018 میں جنرل فیض اینڈ کمپنی نے آر ٹی ایس بٹھا کر آپ کو اقتدار تک پہنچایا۔ میں بنیادی طور پر سمجھتا ہوں کہ اگر عمران خان صاحب کو معافی مانگنی چاہیے تو اس بات پر مانگنی چاہیے کہ انہوں نے مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر 2014 کے دھرنے کیے اور 2018 کا الیکشن چرایا۔ جبکہ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ آٹھ فروری 2024 کے الیکشن میں عمران خان صاحب صرف واضح نہیں بلکے دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ چکے تھے لیکن کیونکہ مقتدر حلقوں کو یہ بات منظور نہیں تھی لہذا وہ اقتدار تو دور کی بات پچھلے دو سال سے جیل سے ہی نہیں نکل پا رہے۔
لہذا اس حمام میں سب ننگے ہیں اگر معافی مانگنی چاہیے تو مقتدر حلقوں اور سیاست دانوں کو مل کر قومی ترانے کی دھن پر اکھٹے معافی مانگنی چاہیے اور غیر آئینی کاموں سے توبہ کرکے ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے کام کرنا چاہئے۔

