Quaid Banam Pakistan
قائد بنام پاکستان

عالم بالا!
میرے پیارے پاکستانیوں۔
امید ہے سب ٹھیک چل رہا ہوگا۔
میرے پاس جب بھی پاکستان سے کوئی خبر لے کر آتا ہے تو میرا دل وہ خبر سننے سے پہلے ہی تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے کہ خدا خیر کرے۔ کیونکہ جب بھی کوئی خبر آتی ہے اُس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام کی صورتحال ہی ہے۔ ہماری کوششوں سے پاکستان کو معرض وجود میں آئے تقریباََ 78 سال بیت گئے تب سے ہی ہم استحکام کے متلاشی ہیں نہ جانے کب جا کر یہ اِس ملک کو نصیب ہوگا۔ ویسے تو پاکستان سے خوشی کی خبر مشکل سے ہی نصیب ہوتی ہے لیکن پچھلے دنوں جب پڑوسی ملک سے جنگ کی صورتحال بنی اور ہمیں فتح نصیب ہوئی تو اس پر میرے سمیت یہاں موجود تمام پاکستانیوں نے جشن منایا اور اپنی افواج کی اس بھرپور برتری پر بھرپور تعریف کی۔
جس برتری کا اعتراف پورے انٹرنیشنل میڈیا نے بھی کیا اس پُر مسرت موقع پر ہم نے افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا اور اِن کی کارکردگی کو سراہا اور ہم نے بھرپور دعائیں کی کہ ہمیں ہمیشہ اسی طرح کی اطلاعات پاکستان سے نصیب ہوں۔ اس کے علاوہ پچھلے دنوں میں خارجی معاملات میں بھی موجودہ حکومت کی بہترین کاوشوں پر دلی خوشی ہوئی۔ بیرونی معاملات میں تو پاکستان کے حوالے سے دل مطمئن نظر آتا ہے مگر اس وقت تک مکمل اطمینان نصیب نہیں جب تک کہ اندرونی معاملات میں بھی استحکام نا لایا جائے۔ پاکستان تقریباً ہمیشہ سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے مگر موجودہ دور میں یہ عدم استحکام کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کو اس وقت میثاق معیشت اور میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے۔ آئین میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ اِس میں ویسے کوئی بُری بات نہیں کیونکہ پارلیمنٹ کا اصل کام قانون سازی کرنا ہی ہے۔ مگر قانون سازی ایسی کی جائے جس میں عوام کے حقوق کا تحفظ ہو نہ کہ اپنے یا کسی فرد واحد کے مفادات کو پِیش نظر رکھا جائے اور خاص طور پر قانون سازی کے وقت پارلیمنٹ کی اکثریت کا اِس پر اتفاق رائے کرنا اور خصوص بالخصوص پارلیمنٹیرینز کی رائے اس میں شامل کرنا اصل جمہوری نظام کا طریقہ کار ہے۔ اِس قانون سازی پر مجھے افسوس ہے کہ جو پارلیمنٹیرینز کو پریشر میں لا کر زبردستی کسی بھی قانون سازی کے حق میں ووٹ دلوائے جائیں۔ اِس طرح کے اقدامات جمہوریت نہیں بلکہ آمریت کی عکاسی کرتے ہیں۔
26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی مجھے اس عمل پر شدید دُکھ ہوا تھا جب مجھے خبر ملی تھی کہ ایوان بالا میں نمبر پورے نا ہونے کی صورت میں بلوچستان کی ایک پارٹی کے دو سینیٹرز کو زبردستی قانون سازی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے ایوان بالا میں لایا گیا ہے جبکہ اُن کی پارٹی کے سربراہ اختر جان مینگل چیخ چیخ کر میڈیا پر کہتے رہے کہ ہم اس آئینی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں اور اِس کے حق میں ہرگز ووٹ نہیں دیں گے جبکہ ان کے سینیٹرز کو زبردستی لا کر اس قانون سازی کے حق میں ووٹ دلوایا گیا۔ جبکہ اِس بار 27 ویں ترمیم کے موقع پر بھی اِسی قسم کا عمل کیا گیا اس بار بھی عددی اکثریت حاصل کرنے کے لیے دو ارکان کم پڑ رہے تھے لہذا وہی پریشر کا حربہ استعمال کرتے ہوئے عمران خان کی جماعت کے ایک سینیٹر کو اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے ایک سینیٹر کو زبردستی ووٹ دینے کے لیے مجبور کیا گیا کیونکہ دونوں جماعتیں اِس آئینی ترمیم کو مسترد کر چکی تھی لہذا پی ٹی آئی کے سینیٹر نے تو ووٹ دینے کے فوراً بعد ہی مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ جبکہ مولانا نے بھی اپنے سینٹر کو جماعت کے فیصلے کی خلاف ورزی کرنے پر پارٹی سے نکال دیا ہے۔
ایک اور افسوس ناک خبر جس کا مجھے دلی طور پر دُکھ ہوا وہ اسلام اباد کے نامور صحافی اعزاز سید کی خبر تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ سینٹر عرفان صدیقی 27 ویں ترمیم کو ایوان بالا میں پیش کرنے سے قبل ہی انتقال کر چکے تھے جبکہ اُن کے انتقال کی خبر کو چھپایا گیا تا کہ اجلاس جاری رہے کیونکہ یہ روایت ہے کہ جب کوئی پارلیمنٹ کا ممبر فوت ہو جاتا ہے تو اجلاس کو اُس دن کے لیے ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ اعزاز سید کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر ایک سینیٹر نے ہی دی اور جب آئینی ترمیم کو منظور کر لیا گیا اور بعد میں عرفان صدیقی کے انتقال کی خبر باقاعدہ طور پر آگئی تو ان سینٹر صاحب نے مجھے کہا کہ دیکھ لیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ لہذا ترمیم کو ایک دن بعد منظور کر لیا جاتا تو کون سی قیامت آجانی تھی۔ 27 ویں ترمیم کے بعد 28 ویں اور پھر 29 ویں کی بھی باتیں ہو رہی ہیں اس پر میں تو تمہیں یہی مشورہ دوں گا کہ اِس طرح کی ترامیم کرکے عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرکے اور اپنے لیے استثنا لے کر عوام میں آپ کے لیے کوئی محبت کا عنصر نہیں جاگے گا بلکہ نفرت ہی بڑھے گی۔
اگلے دن نوابزادہ نصر اللہ خان میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے کہ یہ شہباز شریف ویسے تو بہت مصلحت پسند ہے لیکن کیوں یہ سب کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکام ہے یعنی عمران خان تو چلیں ان کے سخت خلاف ہے یہ تو اپنے پسندیدہ جناب مولانا فضل الرحمان جو کہ عمران خان کے خلاف بنائی گی پی ڈی ایم میں ان کے سربراہ تھے اور اپنے اتحادی ولی خان کے پوتے ایمل ولی خان کو بھی اعتماد میں نہ لے سکے۔
نوابزادہ نصراللہ خان یہی بات کر ہی رہے تھے کہ اوپر سے ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو بھی تشریف لے آئیں۔ بحث پہلے سے ہی جاری تھی لہذا بے نظیر بھٹو بھی اس میں شامل ہوگئی اور کہنے لگی کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے جمہوریت کے لیے اچھا نہیں مگر جو جیل میں بیٹھا ہے اُسے بھی تو اپنی انا چھوڑنا ہوگی۔ میں نے اور نواز شریف نے بھی تو میثاق جمہوریت کیا تھا تبھی جا کر ہم ایک ڈکٹیٹر کو شکست دے پائے تھے۔ جس پر نوابزادہ نصراللہ خان کہنے لگے کہ یہی تو ہم سیاستدانوں کے زوال کی اصل وجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو گرانے میں لگے رہتے ہیں اور اِسی ضد میں رہتے ہیں کہ کسی دوسرے سیاستدان پر زوال آئے اور ہم اپنی جگہ بنائیں اور مقتدر حلقے بھی اس بات کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر یہ سیاستدان سارے اکٹھے ہو گئے تو ہماری طاقت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ لہذا وہ کسی نہ کسی کو طاقت کا لالچ دے کر اپنے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں بلکہ ان سیاستدانوں کی طاقت کی لالچ نے مقتدر حلقوں کے پاس ایسے لوگوں کی کمی کبھی آنے ہی نہیں دی۔
جو کہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان سے ملاقات پر پابندی لگانا اور اس کے خاندان کو اور اس کے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ ساتھ اس کے وکیلوں کو اس سے نہ ملنے دینا سمجھداری کا کام نہیں۔ میاں نواز شریف ویسے تو کم ہی جیل میں رہے ہیں لیکن جب وہ جیل میں تھے تو وہاں پر سیاسی بیٹھک لگایا کرتے تھے اور جیل میں سے ہی اپنی ساری سیاست چلایا کرتے تھے۔ لہذا عمران خان کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے۔ لیکن خان صاحب کو بھی تھوڑی بہت احتیاط برتنی چاہیے اور جیل سے امن اور مفاہمت کا پیغام دینا چاہیے نہ کہ کشیدگی کو بڑھانا چاہیے۔ ظاہر ہے جیل میں رہنا مشکل تو ہوتا ہی ہے پھر نینسن منڈیلا بننا کوئی آسان کام تو نہیں نا! لہذا عمران خان صاحب کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔
اور خاص طور پر اِس کشیدگی کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ایک ادارے کے سربراہ اور ملک کی سب سے مقبول سیاسی پارٹی کے سربراہ میں ذاتی بنتی جا رہی ہے۔ دونوں نے ہی ایک دوسرے کو ذہنی مریض قرار دیا ہے حالانکہ دونوں میں سے کسی کے پاس بھی سائیکاٹرسٹ کی ڈگری موجود نہیں جو اس قسم کے سرٹیفیکیٹ ایک دوسرے کے لیے بانٹتے پھریں۔ اس جنگ میں کسی کا فائدہ نہیں یہ ملکی مفاد کے حق میں بالکل نہیں۔ حکومت کو فی الحال تو اس جنگ میں اپنا فائدہ نظر آرہا ہے لیکن حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ فلحال اپنا وقتی مفاد دیکھنا چاہیے۔ کیونکہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ وہ ڈاکٹر راحت اندوری نے کہا تھا نا:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
وَالسَّلام آپ کا اپنا قائد محمد علی جناح

