Parliament Gallery
پارلیمنٹ گیلری
90 کی دہائی میں جب پرنٹ میڈیا کا طوطی بولتا تھا اور میڈیا چینلز نہ ہونے کے برابر تھے اس وقت انگلش اور اردو دونوں اخباروں میں اس وقت کے بڑے بڑے ایکٹو صحافی قومی اسمبلی کے اجلاس کا احوال لکھا کرتے تھے۔ یہ احوال انگریزی اخبارات میں پارلیمنٹ ڈائری جبکہ اردو اخبارات میں پریس گیلری کے نام سے شائع ہوتا تھا اور قومی اسمبلی کا یہ احوال لکھنا اعزاز کی بات سمجھا جاتا تھا۔
روف کلاسرا لکھتے ہیں کہ شاہین صہبائی، نصرت جاوید، عامر متین، محمد مالک اگر انگریزی میں پارلیمنٹ ڈائری کے گرو مانے جاتے تھے تو اردو میں حامد میر، خوشنود علی خان، جاوید صدیق جیسے صحافی روزانہ کالموں میں پارلیمنٹ کی ڈائری لکھتے اور خوب لکھتے۔ اسلام آباد ڈائری کے نام سے ایاز امیر کا ویکلی انگریزی کالم لاجواب ہوتا جس کا سب انتظار کرتے۔ پوری پارلیمنٹ انتظار کرتی کہ ان صحافیوں نے اپنے اپنے انگریزی اخبارات کی پریس گیلری میں ان کی گزرے دن کی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھا۔ کئی سکینڈلز اور خبریں اردو، انگریزی پریس گیلری میں چھپتیں اور حکومتوں کو اڑا کر رکھ دیتیں۔ پارلیمنٹ کی پریس گیلری کے یہ صحافی اپوزیشن سے بھی زیادہ طاقتور سمجھے جاتے۔
مجھے بھی ایک روز پارلیمنٹ کی مہمان گیلری میں گزارنے کا موقع ملا اسی لیے میں نے اس کالم کا عنوان اردو اور انگریزی دونوں اخبارات کے عنوان کو ملا کر پارلیمنٹ ڈائری رکھا ہے۔
ہم جب قومی اسمبلی کی مہمان گیلری میں پہنچے تو قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس جاری تھا اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان تقریر کر رہے تھے۔ اپوزیشن لیڈر کی تقریر سے لگتا تھا کہ عمر ایوب بڑی لمبی چوڑی تیاری کے ساتھ بجٹ سیشن میں آئے ہیں اور انہوں نے اپنی طویل تقریر کے دوران حکومتی بجٹ کے ایک ایک پوائنٹ سے غلطیاں نکالی اور آخر کار حکومتی بجٹ کو مسترد کر دیا۔ اپوزیشن لیڈر نے اپنی طویل تقریر کے دوران حکومت پر شدید تنقید کی اور پچھلے ڈیڑھ دو سال سے اپنی پارٹی تحریک انصاف پر ہونے والی زیادتیوں اور ظلم و فستایت کا بار بار ذکر کیا۔
اپنے لیڈر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ بھی انہوں نے بار بار قومی اسمبلی میں پیش کیا اور وہ اپنی تقریر کے دوران مسلسل عمران خان کو وزیراعظم کے نام سے پکارتے رہے جبکہ شہباز شریف کو جعلی اور فارم 45 کے وزیراعظم کے نام سے پکارتے رہے۔ وہ بار بار کہتے رہے کہ یہ جعلی حکومت ہے یہ کٹھپتلی ہیں انہوں نے ہمارا مینڈیٹ چرایا ہے عمران خان دو تہائی اکثریت کے ساتھ آٹھ فروری کا الیکشن جیتا ہوا ہے لیکن انہوں نے اور مقتدر حلقوں نے مل کر ہمارا الیکشن چوری کیا ہے۔ عوام کے ساتھ زیادتی کی ہے اور مطالبہ کرتے رہے کہ ہمیں ہمارا مینڈیٹ واپس کیا جائے اور ہمارے لیڈر کو رہا کیا جائے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران بار بار وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف پر بھی طنز کیے اور انہیں جنرل مشرف کے دور میں فوج کے بارے میں ان کا موقوف یاد کرواتے رہے۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی تقریر حکومتی ارکان تحمل سے سنتے رہے خصوصی طور پر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب تو بہت ہی توجہ سے اپوزیشن لیڈر کی تقریر سنتے رہے۔
جب اپوزیشن لیڈر اپنی طویل تقریر کے بعد اپنی سیٹ پر براجمان ہوئے تو اگلی تقریر کے لیے وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کھڑے ہوئے اور انہوں نے عمر ایوب خان پر ذاتی اٹیک شروع کر دیا اور جنرل ایوب خان سے شروع ہو کر عمر ایوب خان کو مختلف پارٹیوں میں جانے کا طعنہ دینا شروع کر دیا کہ آپ نے کوئی پارٹی نہیں چھوڑی جس کے بعد انہوں نے تحریک انصاف کو مشورہ دیا کہ کسی ایسے لیڈر کو اپوزیشن لیڈر بنائیں جو آپ کا پرانا ساتھی ہو جو آپ کا وفادار ساتھی ہو ایسے لوگوں کو نہ بنائیں جن کا کوئی بھروسہ یا اعتبار نہیں یہ تو کل کو مشرف کی تعریفیں بھی کرتے تھے شہباز شریف کی تعریفوں کے پل بھی باندھتے تھے اور آج عمران خان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں لہذا ایسے لیڈروں کو بڑے لیڈر نہ بنائیں۔
خواجہ آصف کے ان جملوں کے بعد ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی اور تحریک انصاف کے ارکان بھی اپنے نشستوں پر کھڑے ہو کر جملے کسنا شروع ہو گئے جبکہ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی اقبال آفریدی نے تو باقاعدہ ریحانہ ڈار کے حق میں نعرے شروع کر دیے اور ریحانہ ڈار زندہ باد ریحانہ ڈار زندہ باد کی تکرار شروع کر دی جس پر خواجہ آصف کہنے لگے شوق سے نعرے لگائیں وہ تو میری رشتہ دار ہیں میں بھی نعرہ لگاتا ہوں۔ جبکہ جو خواجہ صاحب کے مزاج سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ جناب کا معمول ہے کہ جب بھی وہ تقریر کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ پنجابی زبان کا استعمال کرتے ہوئے ایسے جملے کستے ہیں چاہے وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں کے سامنے والے بولنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ خواجہ صاحب پنجابی زبان کا استعمال کرتے ہوئے ایسا مزاح پیدا کرتے ہیں کہ لوگ اپنی ہنسی نہیں روک پاتے اور اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ خواجہ آصف نے مزید عمر ایوب پر ذاتی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تو طارق فضل چوہدری سے کہا ہے کہ یہاں سامنے ایک اشتہار لگوائیں جس پہ عمر ایوب کے مختلف پارٹی ٹکٹس اور مختلف نشانات جن پر یہ الیکشن لڑتا رہا ہے یہاں سامنے پارلیمنٹ ہاؤس میں ان سب کا اشتہار لگوائیں۔
خواجہ آصف کی تقریر کے بعد پی ٹی آئی کے کافی ارکان نے تقریر کی مثلا سیالکوٹ سے رکن اسمبلی برگیڈیئر اسلم گھمن کھڑے ہوئے اور انہوں نے خواجہ اصف سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب جب اپوزیشن میں تھا تو مجھ سے مختلف رشتہ داریاں نکلتا تھا اور جب ہمارے اوپر ظلم و فستائیت شروع ہوئی تو اس نے ایک لفظ ہمارے لیے نہیں کہا بلکہ ہمارے اوپر ظلم و جابر کروانے میں اس کا بڑا کردار ہے۔
برگیڈیر اسلم گھمن کے بعد پی ٹی آئی کے ساہیوال سے رکن اسمبلی رائے حسن نواز کھرل کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی تقریر کی ان کی تقریر کے دوران ان کا ایک جملہ جو پہلے بھی وہ کافی دفعہ کہہ چکے ہیں بہت مشہور ہوا کہ مجھے کہا گیا کہ جہانگیر ترین کے ساتھ شامل ہو جاؤ تو میں نے کہا کہ میں نہ ترین کے ساتھ شامل ہوں گا نہ بدترین کے ساتھ میں بہترین کے ساتھ ہوں اور بہترین کے ساتھ ہی رہوں گا۔
اس کے بعد ایک مولانا صاحب نے بھی اپنی تقریر کی لیکن اس دن کے بجٹ سیشن کی سب سے بہترین تقریر اور اس قومی اسمبلی کے وجود میں آنے کے بعد پانچ سات جو بہترین تقریریں ہوئی ہیں ان میں سے ایک تقریر گجرانوالہ سے نوجوان رکن اسمبلی مبین عارف جٹ کی تھی جنہوں نے سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر خان کو ہرا کر پہلی دفعہ اسمبلی کا رخ کیا ہے۔ اس نوجوان نے تقریر کرنے کا حق ادا کر دیا اور اپنے علاقے گجرانوالہ کا حق مانگنے کے لیے انگریزی، اردو اور خاص کر پنجابی کا اس قدر بہترین استعمال کیا کہ اس کی تقریر کی ویڈیو چند ہی منٹوں میں پورے پاکستان میں آگ کی طرح پھیل گئی اور وائرل ہوگئی۔ اس نوجوان کی تقریر کا خاص کر وہ حصہ جس میں یہ پنجابی میں اپنے علاقے کے مطالبات قومی اسمبلی میں رکھتا ہے مشہور اس لیے ہوا کہ ڈپٹی سپیکر سید غلام مصطفی شاہ نے کہا کہ آپ پنجابی میں بات نہ کریں آپ کی بات مجھے ایک تو سمجھنے میں مشکل ہو رہی ہے اور دوسرا یہ پروسیجر کا حصہ نہیں بنے گی یہ شاید انہوں نے اس لیے کہا کہ ان کا تعلق سندھ سے ہے اور وہ پنجابی سے اتنی واقفیت نہیں رکھتے لیکن ان کی یہ بات پورے سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔
سب سے حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ اس نوجوان کی قومی اسمبلی میں پہلی تقریر تھی جس نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی اس تقریر کے بعد تمام ارکان اسمبلی بشمول اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان، بیرسٹر گوہر علی خان، زرتاج گل وزیر اور دیگر سینیئر ممبران اپنی نشستوں سے اٹھ کر مبین عارف جٹ کو اپنی پہلی تقریر اتنی زبردست کرنے پر مبارکباد دیتے رہے نہ صرف پی ٹی آئی کے اپنے ارکان اس نوجوان کو داد دیتے رہے بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی قادر پٹیل اور آغا رفیع اللہ تو پی ٹی آئی ارکان سے بھی زیادہ انہیں داد دیتے رہے۔
بجٹ سیشن اختتام پذیر ہونے کے بعد مختلف ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں چیرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان، چیف وہیپ تحریک انصاف ملک محمد عامر ڈوگر، سابق وفاقی وزیر شہریار خان آفریدی، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا، سینئر سیاستدان ڈاکٹر فاروق ستار، سابق نگران وزیر اعظم سینیٹر انوار الحق کاکڑ، تحریک انصاف کی پارلیمانی لیڈر زرتاج گل وزیر اور تحریک انصاف کے نوجوان ارکان اسمبلی کرک سے شاہد احمد خٹک، سرگودھا سے اسامہ غیاث میلہ اور گوجرانوالہ سے مبین عارف جٹ جو کہ آج کے سیشن کے ہیرو بھی تھے۔
اس کے بعد ہم ایک نجی ہوٹل میں کھانا کھانے کے لیے گئے جہاں پر سابق وفاقی وزیر فواد حسین چوہدری سے بھی اچانک ملاقات ہوگئی کھانے کے بعد پارلیمنٹ لاجز واپس آئے اور مبین عارف جٹ کے لاجز میں ہی رکے مبین عارف جیٹ ہمارے کزن اسامہ سلطان بھٹی جو کہ لاہور ہائی کورٹ میں وکیل ہیں کے کلاس فیلو اور بہترین دوست ہیں ان کے لاجز پہنچے تو نوجوان ارکان اسمبلی سرگودھا سے اسامہ غیاث میلہ اور وزیر آباد سے محمد احمد چٹھہ (جو کہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے ہیں) کل کے بجٹ سیشن کے لیے اپنی تقاریر تیار کر رہے تھے رات دیر کو جب مبین عارف جٹ ہمارے کمرے میں آئے اور ہم سے پوچھا کہ میری تقریر کیسی لگی تو ہم نے خوب داد دی جس کے بعد میں نے سوال کیا کہ آپ کے مخالف جو بڑے میاں صاحب (نواز شریف) کے کافی قریبی سمجھے جاتے ہیں نے آپ سے ہارنے کے بعد کہا تھا کہ مجھے مزاحمتی پالیسی کی وجہ سے ہروایا گیا جس پر مبین عارف نے ہنس دیا۔