Paper Out
پیپر آوٹ
میں اکثر اوقات جب تنہائی میں بیٹھا ہوتا ہوں تو میرے ذہین میں یہ بات اکثر مجھے اس عارضی دنیا سے کہیں دور لے جاتی ہے کہ
What is the main Purpose behined the Creation of this temporary Universe?
اس تخلیق کی کیا وجہ ہے؟ یہ تو اسلام میں بھی ہے کہ اس کائنات پر اور اس کی تخلیق پر غوروفکر کرنے والا قدرت کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے۔ یہ بات ہماری مقدس کتات قرآن مجید میں تو رب تعالیٰ نے واضع طور پر بیان کر دی کہ"ہم نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے" توکیا اس آیت مبارکہ سے تخلیق کے معنی واضع ہوتےہیں۔؟
اس بارے میں نظریات کی اک لمبی فہرست ہے۔ ہر نظریہ علیحدہ طریقے سے بیان کیا گیا۔ اور ہر گروہ نے علیحدہ نظریے کا پرچم تھام رکھاہے۔ میں کسی بھی نظریے کی حمایت میں یا مخافت میں بات نہیں کروں گا۔ لیکن میرا بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بطور مسلمان ہمیں اس چیز پر غور کرنا چاہئے کہ کیا تخلیق کی وجہ صرف اس دنیا میں آنا اور زندگی گزار کے چلے جانا ہے۔ نہیں بلکل بھی نہیں ہر انسان کسی نا کسی مقصد کے تحت اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ صرف اسے اپنے اندر موجود اس صلاحیت کو دریافت کرنا ہے جس کے لیے وہ بھیجا گیا ہے۔
کچھ دن پہلے ایک واقعہ پیش آیا جس سے میرے تجسس میں اور زیادہ اضافہ ہوا یہ کافی حیران کن واقعہ تھا جس میں ایک ASP نے جس کا نام ابرار بتایا جاتا ہے نے خود کشی کر لی اور ایک خط لکھ گیا جو کافی حیران کن تھا۔ اس میں وہ لکھتا ہے کہ "میں خودکشی اس لیے کر رہا ہوں کیوں کہ مجھے تخلیق کی سمجھ آ گی ہے"۔
اس کے علاوہ بھی اس نے لکھا لیکن یہ الفاظ قابلِ غور تھے۔ ایک سمجھ رکھنے والے کا اس طرح کا کام کرنا غوروفکر میں ڈالتا ہے۔ اس راستے پر تو کوئی بھی چل سکتا ہے مگر کائنات کی تخلیق اور اس پر غوروفکر کے معاملات میں حضرت علامہ محمد اقبال جیسا فلسفہ، محترم واصف علی واصف جیسی ذہانت اور آج کل کے دور میں پروفیسر احمد رفیق اختر جیسی قابلیت ہمارے لیے اس راہ میں آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ ان تینوں شخصیات کا میں بڑا مداح ہوں۔
ان تینوں کے طرز زندگی سے یہ ہی سبق ملتا ہے کہ فلاح صرف اور صرف قرآن پاک کی پیروی کرنے میں ہے۔ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کا بھی کوئی مشکل امتحان ہو اور وہ اس بارے میں کافی پریشان بھی ہو اور پھر اُسے پتہ چل جائے کہ امتحان میں کون کون سا سوال آنا ہے تو اس کی خوشی کی انتہا کیا ہو گی بطور طالبعلم آپ اس سے باخوبی واقف ہوں گے۔
تو ہمارے رب تعالٰی نے تو قرآن مجید کے ذریعے سے سارا امتحان ہمیں بتا دیا ہے۔ اب اگر ہم خود قرآن صرف غلافوں میں رکھیں گے اور اس مقدس کتاب سے سیکھنے کی بجائے اسے کھولیں گے بھی نہیں تو ہم اس امتحان میں کیسے کامیابی حاصل کر سکیں گئے۔ میرے پیرومرشد حضرت علامہ محمد اقبال نے کہا تھاکہ۔۔۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے ترِک قرآں ہو کر
تو پس جس بھی منزل تک پہچنا چاہتے ہیں قرآن مجید سے رہنمائی لینے سے آسانیاں آئیں گی کیوں کہ رب تعالٰی نے خود بیان کیا ہے کہ اس میں ہر کسی کے لیے راہنمائی موجود ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب ہم اس عارضی دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف جاہیں گے تو وہاں سب سے پہلا سوال نماز کا ہوگا۔ اس دنیا میں ہم اس طرح مگن ہیں کہ ہمیں اس حقیقی دنیا کے لیے تیاری کی کوئی فکر ہی نہیں۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ نماز کا حکم آیا ہے۔
وجہِ تخلیقِ کائنات ہمارے پیا رے نبی حضرت محمدؐ نے فرمایا "نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔" تو جن کو بطور مسلمان ہم وجہ تخلیقِ کائنات سمجھتے ہیں اور رب تعالٰی بھی فرماتے ہیں کہ "اگر میں محمدؐ کو نا پیدا کرتا تو یہ کا ئنات ہی نا بناتا" تو کیا ان کی مقدس آنکھوں کو ٹھنڈک پہچانے کے لیے ہم دن میں پانچ مرتبہ اللہ کے حضور سر نہیں جھکا سکتے۔
حضرت محمدمصطفیؐ کے وصال کے بعد دو گرہوں کی تشکیل ہوئی۔ ایک گروہ نے صدیق اکبر حضرت ابوبکر صدیقؓ کا پرچم تھام لیا اور دوسرے گروہ نے شیر خدا حضرت علی المرتضیؓ کا پرچم تھام لیا۔ دونوں شخصیات ہمارے پیارے نبیؐ کے یارِ غار اور دونوں آپؐ کے انتہائی قریب۔
ایک کے داماد آپؐ خود اور دوسرے آپؐ کے داماد تو ان میں سے کسی کے بارے میں بھی کوئی گستاخی کی بات کرنے والا نبیؐ کا قرب حاصل نہیں کر سکتا کیوں کہ آپؐ نے فرمایا "میرے صحابہؓ کی عزت کرنا میری عزت کرنے کے مترادف ہے"۔ تو جو نبیؐ کا قرب حاصل نا کر سکا تو وہ اللہ کا قرب کبھی بھی حاصل نا کر سکے گا کیوں کہ رب تعالٰی نے خود فرمایا "جس نے میرے نبیؐ کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی" میں بذاتِ خود فرقہ پرستی کا بہت بڑا مخالف ہوں۔ ہمارے علماء کا کردار اس سلسلے میں بڑا اہمیت کا حامل ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا فرقہ پرستی کوپھیلائے بغیر عوام میں مقبول نہیں ہوا جا سکتا؟
محترم مولانا طارق جمیل اور محترم ثاقب رضامصطفی کو بہت سنا مگر میں نے آج تک ان کو فرقہ پرستی پھیلاتے نہیں سنا تو وہ بھی تو اس وقت سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ خدارا مقبولیت کا معیار بدلیں۔ لہذا اس نظریے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پس اللہ تعالٰی نے بھی قرآن پاک میں فرمایا کہ "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نا بٹو"۔