Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Naujawan Qayadat Ka Mission Sar e Aam

Naujawan Qayadat Ka Mission Sar e Aam

نوجوان قیادت کا مشن سٙرِ عام

سینیئر صحافی و اینکر پرسن سید اقرار الحسن جو کہ اے آر وائی نیوز پر اپنے مشہور زمانہ پروگرام "سٙرِعام" کی وجہ سے پورے ملک میں پہچانے جاتے ہیں نے آجکل ایک تحریک کا آغاز کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اِس تحریک کا مقصد عام مڈل کلاس آدمی کو سیاست میں لا کر قیادت کروانا اور اُنہیں وزیراعظم کی کرسی تک لے جانا میرا مقصد اور اس تحریک کا ویژن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں شخصیت پرستی سے نکل کر اپنے میں سے عام لوگوں کو چن کر لیڈر بنانا ہوگا تبھی جا کر اس ملک کے اصل مسائل ایوان اقتدار تک پہنچیں گے۔ وہ اس سلسلے میں پورے ملک کے دورے بھی کر رہے ہیں اور شاید عنقریب سیاسی جماعت کی بنیاد بھی رکھ دیں۔

اچھی بات ہے اچھے خیالات ہیں اس ویژن پر انہیں نیک تمنائیں اور ڈھیروں دعائیں دینی چاہیے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ پہلے ہی ملک میں بے شمار سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں ان میں سے شاید بہت سی سیاسی جماعتیں اِسی ویژن پر کام کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ماضی کے مشہور گلوکار جواد احمد نے بھی برابری پارٹی پاکستان کے نام سے اپنی ایک سیاسی جماعت بنا رکھی ہے۔ جس کی فالونگ تو پاکستان میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہی ہے لیکن اُن کے خیالات بھی اسی طرح کے ہیں وہ بھی سید اقرار الحسن کی طرح کہتے ہیں کہ میں بھی خود الیکشن نہیں لڑوں گا بلکہ عام لوگوں کو الیکشن لڑوا کر ایوان اقتدار اور وزیراعظم کی کرسی تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔

جواد احمد نے بھی سید اقرار الحسن کے ویژن کی طرح عام لوگوں کو ٹکٹ دیے اور 2018 کے الیکشن میں پہلی دفعہ ان کی جماعت نے الیکشن لڑا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جتنے رکشوں پر جواد احمد کی برابری پارٹی کے بینرز لگے تھے ان رکشوں کی تعداد سے بھی کم جواد احمد کو ووٹ پڑے اور 2024 میں بھی اسی طرح ہوا۔

اس کے علاوہ اور بھی کافی سیاسی جماعتوں کی مثالیں موجود ہیں ۔ لیکن جواد احمد ہوں یا پھر سید اقرار الحسن ان کا نشانہ عمران خان ہی دکھائی دیتا ہے حالانکہ وہ پچھلے تقریباً دو سال سے جیل میں پڑا ہے اور اس کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب ہی جانتے ہیں بتانے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن اس سب کے باوجود جواد احمد بھی دن رات عمران خان پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ سید اقرار الحسن نے اس تحریک کا آغاز کرنے سے کافی عرصہ پہلے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے عمران خان کو باقاعدہ نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عمران خان اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے اور وہ بھی اس سیاسی جماعت کا جس کا نعرہ تبدیلی اور نوجوان تھا۔

خان صاحب اپنے ساڑھے تین چار سالہ دور اقتدار میں شاید تبدیلی تو نہ لا سکے لیکن نوجوانوں کو آگے لانے میں کسی حد تک کامیاب رہے کیونکہ جنرل ضیاء الحق کی طلباء تنظیموں پر پابندیوں کے بعد سٹوڈنٹ لیڈر آنے نہ ہونے کے برابر ہو گئے تھے عمران خان نے جب نوجوانوں کا نعرہ لگایا اور آئی ایس ایف بنائی تو اس سے کافی نوجوان جو کہ عام مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے سیاست میں آئے اور لیڈر بن گئے اس کی سب سے بڑی مثال موجودہ وزیر اعلی خیبر پختون خواہ سہیل آفریدی کی ہے اس کے علاوہ صوبائی وزیر مینہ خان آفریدی، رکن قومی اسمبلی شاہد خان خٹک اور سابق وفاقی وزیر اور موجودہ سینیٹر مراد سعید یہ تمام ایسی مثالیں ہیں جن کا تعلق مڈل کلاس گھرانوں سے ہے لیکن وہ آج بطور لیڈر پورے ملک میں جانے اور مانے جاتے ہیں ۔

چند سال قبل سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین نے "سچ تو یہ ہے" کے نام سے اپنی ایک کتاب لکھی اس کتاب کی تقریب حلف برداری میں سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے اپنی تقریر کے دوران بڑی ایک معنی خیز بات کی انہوں نے کہا کہ ہم زیادہ تر سیاستدان بوڑھے ہو چکے ہیں جبکہ کوئی بڑا نوجوان سیاسی لیڈر نظر نہیں آتا جو کہ بڑی فکر مندی کی بات ہے۔ لہذا اگر ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا پاکستان تحریک انصاف سے اس معاملے میں کوئی مقابلہ نظر نہیں آتا کیونکہ انہوں نے عام مڈل کلاس لوگوں کو لیڈر بنایا جبکہ ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی وہاں ایک عام ورکر کا وزیراعلی تو دور کی بات ہے پارٹی ٹکٹ لینا ہی مشکل ہے۔

شریف خان تو وزارت اعلی اپنے گھر سے ہی نہیں نکلنے دیتا یعنی کسی دور میں نواز شریف تھے تو پھر شہباز شریف نے وہ سیٹ سنبھال لی پھر حمزہ شہباز آئے اور اب مریم نواز جب کہ پیپلز پارٹی شریف خاندان کی طرح وزارت اعلی گھر میں تو نہیں رکھتی مگر وہ بھی وڈیروں اور بڑے جاگیرداروں کو وزیراعلی اور وزیر بناتی ہے۔

بہرحال آٹھ فروری 2024 والے الیکشن سے چند ماہ قبل میری جواد احمد صاحب سے ملاقات ہوئی جس میں میں نے جواد احمد صاحب سے سوال کیا کہ جناب آپ بھی عام لوگوں اور نوجوانوں کی بات کرتے ہیں جبکہ یہی بات عمران خان آپ سے پہلے سے کر رہے ہیں اور بہت سے نوجوان اُن کے ساتھ جڑ بھی گئے ہیں تو آپ ان پر بے جا تنقید کیوں کرتے ہیں کیا اس سے نوجوان طبقے میں آپ کے لیے نفرت بڑھے گی نہیں؟ جس پر موصوف نے جواب دیا کہ عمران خان بھی نواز شریف اور آصف علی زرداری کی طرح پیسے والوں اور بڑوں کا لیڈر ہے اور اس کے علاوہ بھی عمران خان کے لیے بڑی سخت زبان استعمال کی جو میں یہاں لکھنے سے قاصر ہوں۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ جواد احمد ہوں یا پھر سید اقرار الحسن ان کا ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے ہٹ کے عمران خان کو ہی تنقید کا نشانہ بنانے کا اصل مقصد اپنے لیے سپیس بنانا ہے۔

میری نظر میں تو یہ دونوں ہوں یا کوئی اور ہو جو اس طرح کا طریقہ اپناتا ہے وہ اپنی سپیس بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن بہت سے لوگ انہیں اسی گلدستے کا پھول سمجھ رہے ہیں جس گلدستے سے عمران خان ہوں نواز شریف ہوں یا پھر بھٹو صاحب تھے نکل کر آئے ہیں، جن پیروں سے دم کروا کر یہ یہاں تک پہنچے ہیں لو اقرار الحسن کو بھی انہی پیروں کا مرید سمجھ رہے ہیں ۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس بات میں کس حد تک سچائی ہے کیونکہ اقرار صاحب اللہ اور اس کے رسول کی قسمیں اٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ میرا ان سے کوئی تعلق واسطہ نہیں جن سے میرا تعلق جوڑا جا رہا ہے۔

لہذا ہمارا جمہوری معاشرہ اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ جو کوئی بھی سیاست کی طرف رجوع کرتا ہے اُس کی طرف یہ انگلی لازماً اُٹھائی جاتی ہے کہ کہیں مقتدر حلقوں کی رہنمائی سے تو یہ قدم نہیں اٹھا رہا کیونکہ یہ بات تو ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے کہ مقتدر حلقوں کی سپورٹ کے بغیر پاکستان میں سیاست کرنا ناممکن عمل ہے۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارا جمہوری نظام بھی اس بات کو تسلیم کر چکا ہے تو ہمارے جیسے کم عقل سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس کو جمہوریت کا نام کس لیے دے رکھا ہے یہ تو سراسر جمہوریت کی توہین ہے بہرحال اقرار الحسن صاحب کے لیے یہی مشورہ ہے کہ سیاست کا میدان صحافت سے کئی درجے مشکل میدان ہے اس میں مختلف اُتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں پھر کہیں یہ نہ ہو کہ آپ کے امیدوار بھی جواد احمد کی طرح اپنے لگائے گئے بینرز سے بھی کم ووٹ حاصل کریں اور اپنی ضمانتیں ہی ضبط کروا بیٹھے۔ بہرحال بظاہر تو آپ کا یہ قدم احسن معلوم ہوتا ہے جس میں نوجوانوں کو آگے لانے کا مشن ہے امید ہے کہ آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں آئے گا ایک دفعہ پھر آپ کے لیے نیک تمنائیں۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali