Kufr Toota Khuda Khuda Kar Ke
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
خدا خدا کرکے الیکشن کی تاریخ کا تو اعلان کر دیا گیا لیکن غیر شفاف انتخابات کی بو ابھی سے آنے لگ پڑی ہے۔ ویسے تو پاکستان کے انتخابات کی تاریخ کچھ اس طرح کی ہے کہ شفاف انتخابات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ہر الیکشن سے پہلے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اقتدار میں کون آتا دیکھائی دے رہا ہے۔
لیکن پھر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرض لے کر ہم اتنا بڑا ڈرامہ کس لیے کرتے ہیں جب سب چیزیں پہلے سے ہی طے شدہ ہوتی ہیں۔ اصل ظلم اور زیادتی تو ملک و قوم کے ساتھ یہ کی جاتی ہے کہ ان کا منہ رکھنے کے لیے ان کی رائے بھی لے لی جاتی ہے اور ان کی رائے کا احترام بھی نہیں کیا جاتا۔ اس سے بڑا مذاق قوم کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟
اب یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ 8 فروری کا دن بھی مقتدر حلقوں کی جانب سے منتخب کیا گیا ہے جس کی خبر زبردستی کے سابق اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بہت پہلے کاشف عباسی کے پروگرام میں دے چکے ہیں۔
مقتدر حلقوں کے اس قدر طاقتوار ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ سیاستدان خود بھی ہیں کیونکہ یہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس قدر جی حضوری پر اتر آتے ہیں کہ مقتدر حلقے اپنے آپ کو اتنا طاقتور تصور کرنے لگتے ہیں کہ وہ عوام کی رائے کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔
اب کہا جا رہا ہے کہ مقتدر حلقوں کی خواہش ہے کہ نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور استحکام پاکستان اتنی سیٹیں جیتیں کہ مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوں اور جو لیڈر جیل میں ہے اسے الیکشن تک جیل میں ہی رکھا جائے اور الیکشن سے پہلے پہلے اسے نااہل بھی کروا دیا جائے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
اور دور اندیشوں کو یہ خواہشات پوری ہوتی بھی نظر آ رہی ہیں۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کب تک یہی نظام چلتا رہے گا کہ مقبولیت پر ہمیشہ قبولیت ہی فاتح رہے گئی۔
چاہے جتنا مرضی کوئی پاپولر ہو جب تک اس کی قبولیت نہیں ہوگی وہ اقتدار میں نہیں آسکتا۔ اس غیر آئینی اور غیر قانونی عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے نا کام تجربے کے بعد پھر انھی کو اقتدار میں لانے کے راستے ہموار کرنا اس ملک کے ساتھ کہاں کا انصاف ہے۔ خدارا عوام کو فیصلہ کرنے کا حقیقی معنوں میں حق دیں۔
سیاستدانوں کو بھی ایک دوسرے کی مقبولیت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ آجکل جس طرح نواز لیگ اس بات پر خوش نظر آتی ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے پی ٹی آئی بھی ٹھیک اسی طرح 2018 کے انتخابات میں خوش نظر آتی تھی۔
سب اپنے اپنے فسانے سناتے جاتے ہیں
نگاہ یار مگر ہم نوا کسی کی نہیں
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
مگر اس سلسلے کو روکنے کی ضرورت ہے اور اس عدم برداشت کی سیاست میں ایک نواب زادہ نصراللہ خان کی ضرورت ہے جو ان سب کو تحمل کا درس دے اور ان کے درمیان مفاہمت کروائے۔ نواب زادہ نصراللہ خان جیسے بڑے سیاستدان ہی اس ملک میں جمہوریت کے اصل محافظ تھے جو ہر سیاسی تحریک کے روح رواں بھی ہوتے تھے اور مفاہمت میں بھی سب سے آگے ہوتے تھے۔ کاش آج بھی کوئی نواب صاحب جیسا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا۔
سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کی بجائے دل بڑا کرکے ان سے مذکرات کے ذریعے کوئی سیاسی حل نکالنے میں ہی بہتری ہے کیونکہ سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا ڈکٹیٹروں کا طرز عمل ہے۔
جنرل ایوب خان جب اقتدار میں آئے تو انھوں نے آتے ہی سیاسی مخالفوں کو قید کر دیا اور سب سے پہلے اس کی زد میں حسین شہید سہروردی آئے وہ کہتے رہ گئے کہ میرے بعد بنگال کا ایسا کوئی لیڈر نہیں جو مذکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے میں پیش پیش ہو اور تاریخ نے ثابت کیا کہ اس کے بعد ہی آپس کی نفرتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور بات علیحدگی پر آ کر ختم ہوئی۔ ہمیں تاریخ نے بڑے بڑے سبق پڑھائے ہیں مگر ہم ان سے سبق سیکھنے کی بجائے اسے دوہرانے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔
اب تک کیے جانے والے سرویز کے مطابق عمران خان اس ملک کے پاپولر ترین لیڈر مانے جا رہے۔ عمران خان نے جو بھی غلطی کی ہو لیکن اس طرح اسے الیکشن پروسیس کا حصہ ہی نا بننے دینا زیادتی ہوگی اور اس عمل سے بہت بڑی تفریق پیدا ہوگی۔ عوام کے دلوں میں پہلے ہی بہت نفرت اور غم و غصہ ہے خدارا اس کو مزید تقویت نہ ہی دیں تو اس ملک و قوم کے مسقبل کے لیے بہتر ہوگا۔
اس ملک کی تاریخ میں تو ویسے مقبول لیڈروں کے ساتھ اچھے کی مثال نہیں ملتی مگر کیا یہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا اس سلسلے کو روکنا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اگر مقبول ترین ہوتے ہوئے بھی پھانسی پر چڑھا دیا گیا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہر مقبول لیڈر کو نشانہ عبرت بنا دیا جائے۔
بھٹو کے دور میں عام عوام اس قدر چیزوں سے واقف نہ تھی جتنی وہ اب ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کون کروا رہا ہے۔ یہ تمام تجربے پیپلز پارٹی پر ہو چکے مگر وہ ابھی تک ایک مقبول جماعت کے طور پر موجود ہے تحریک انصاف سے بھی آپ جتنے گروپ نکال لیں چیرمین تحریک انصاف کا ووٹ بینک اپنی جگہ موجود ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے کوئی انکار بھی نہیں کر سکتا۔
ہر کسی کو لیول پلینگ فیلڈ ملنی چاہیے تب ہی انتخابات کی شفافیت ممکن ہو سکتی ہے نہیں تو پھر پہلے کی طرح انتخابات پر انگلیاں اٹھیں گی اور اگلے پانچ سال کے لیے پھر سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جائے گئی۔
لہذا اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے صاف اور شفاف انتخابات کی اشد ضرورت ہے۔ جس میں کسی کے لیے کوئی ہمدردی نا ہو بس عوام کی رائے کا احترام کیا جائے یہ عمل مقتدر حلقوں کے لیے مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں۔