Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Jang Bandi

Jang Bandi

جنگ بندی

ایران اسرائیل جنگ بندی کروانے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کتنا کردار ہے؟ یا امریکہ اور اسرائیل اس بات سے بخوبی واقف ہو گئے تھے کہ وہ ایران کو جس قدر کمزور سمجھ رہے تھے ایران اتنا بھی کمزور نہیں ہے؟ لہذا وہ جلد ہی جنگ بندی پر رضا مند ہو گئے! یہ سب سوال تو اپنی جگہ موجود ہیں مگر ایران نے اسرائیل کی دہشت گردی کا بھرپور جواب دے کر عالم اسلام کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ قوت ایمانی رکھنے والوں کو شکست دینا آسان کام نہیں ہوتا چاہے پھر مد مقابل اسرائیل اور امریکہ جیسے طاقتور ملک ہی کیوں نہ ہوں۔

دراصل اسرائیل ایران پر حملہ کرکے اور ایرانی عوام کو مشتعل کرکے ایرانی حکومت کا تختہ پلٹنا چاہتا تھا اور ایران میں نئی حکومت قائم کروانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اسرائیل کا یہ خواب چکنا چور ہوگیا ایرانی عوام سڑکوں پر آئی تو سہی مگر اپنی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ نیتن یاہو کی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرنے کو۔

اسرائیل کا ناجائز قیام جب سے عمل میں آیا ہے تب سے اسرائیل ایک گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھنے میں مصروف ہے گریٹر اسرائیل میں پورا فلسطین، شام، لبنان اور مصر کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ اسی خواب کے تناظر میں اسرائیل کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی ملک سے گتھم گتھا ہو جاتا ہے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ صرف چھ دن جاری رہی تھی۔ اس جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غزہ اور گولان کی پہاڑیوں سمیت مصر کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

1973ء کے ماہِ رمضان میں شروع ہونے والی عرب اسرائیل جنگ 19 دن جاری رہی جس میں مصر نے نہ صرف اپنے کئی علاقے واپس لے لئے بلکہ اس جنگ میں اسرائیل کا بہت نقصان بھی ہوا۔ 1982ء میں اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ میں بھی اسرائیل کو امریکا کی مدد حاصل تھی لیکن آخر کار اسرائیل کو لبنان سے واپس جانا پڑا۔ لبنان سے اسرائیل کی پسپائی میں حزب اللہ کا کردار بہت اہم تھا۔ حزب اللہ کو ایران کی حمایت حاصل تھی۔ جو لوگ حزب اللہ کو ایران کی پراکسی قرار دیتے ہیں وہ اسرائیل کو امریکہ کی پراکسی قرار دینے میں بہت ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ منافقت سے کام لیتے ہیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے ہر غیر قانونی کام میں امریکہ اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے۔ جب کہ امریکہ خود جس سمت گیا وہیں سے ناکام لوٹا مثال کے طور پر 1955ء میں امریکہ نے ویتنام میں ایک جنگ شروع کی۔ 20 سال تک یہ جنگ جاری رہی۔ آخر کار امریکہ شکست سے دوچار ہوا۔

2001ء میں امریکہ نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ شروع کی اور سب سے بڑی بات اس جنگ میں امریکہ اکیلا نہیں تھا بلکہ بہت سے ممالک امریکہ کی امداد کو اس جنگ میں شریک ہوئے تھے پاکستان نے بھی اس دور میں امریکہ کو اپنے اڈے مہیا کیے۔ لیکن اس سب کے باوجود 20 سال کے بعد امریکہ نے طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کئے اور رسوا ہو کر افغانستان سے بھاگ نکلا۔ 20 سال تک پاکستان نے امریکہ کی جنگ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ والے محاورے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے لڑی اور ڈالرز کی خاطر اپنے بہت سے فوجی مروائے نہ صرف فوجی مروائے بلکہ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کو بھی فروغ ملا اور اس کے باوجود امریکہ ہم سے ہر جگہ ناراض ہی رہا کہ پاکستان نے ہماری جنگ صحیح طریقے سے نہیں لڑی! بہرحال یہی ثابت ہوا کہ امریکہ اور اسرائیل جس قدر بھی طاقتوار ہیں مگر آخر کار رسوائی ہی ان کا مقدر ہے۔

عالمی دہشت گرد نیتن یاہو اگر اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جاتا تو اس کا اگلا نشانہ یقیناََ پاکستان ہوتا۔ لیکن کیونکہ رسوائی اس کا مقدر تھی اس لیے اسے منہ کی کھانا پڑی۔

میں تو ان دانشوروں پر حیران ہوں جو ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام دلوانے کے خواہش مند ہیں۔ امریکہ وہ ملک ہے جس کا دنیا میں ہونے والی ہر جنگ میں کہیں نہ کہیں کوئی کردار موجود ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ تو عالمی دہشت گرد نیتن یاہو کا سرپرست اعلی ہے جو عرصہ دراز سے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کر رہا ہے۔ یہ نوبل امن انعام کا امیدوار تب ہوتا اگر یہ فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا بلکہ آواز کیا اٹھاتا یہ تو ان مظالم کو رکوا بھی سکتا تھا مگر یہ تو اس عالمی دہشت گرد کا سرپرست اعلی بنا رہا اس لیے اسے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے اور انہیں ایک نظر غزہ میں ہونے والے مظالم پر ضرور ڈالنی چاہیے۔

اسرائیل نے سمجھا تھا کہ جس طرح پہلے اسماعیل ہانیہ کو شہید کرنے کے بعد ایران ان کا کچھ خاص نہیں بگاڑ سکا تھا اس بار بھی حملے کے بعد ایران ہمارا کیا بگاڑ سکے گا مگر اس بار کے جواب کے بعد اب وہ ایران سے ٹکرانے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔

اس جنگ کے دوران ہمارے ہاں ہر بار کی طرح مذہبی منافقت عروج پر رہی بہت سے لوگ ایران کو اس لیے سپورٹ نہیں کر رہے تھے کیونکہ ان کا تعلق ایک مخصوص فرقہ یعنی اہل تشیع سے ہے۔ اس کا ایک بہت ہی خوبصورت جواب قائد اعظم رحمت اللہ علیہ نے دیا تھا قائد اعظم محمد علی جناح سے کسی نے کہا کہ جناب میں آپ کو ووٹ اس لیے نہیں دوں گا کیونکہ آپ شیعہ ہیں تو قائد اعظم کہنے لگے کہ گاندھی کو دے دینا وہ سنی ہے۔ یعنی کم از کم یہودیوں اور کافروں کے خلاف تو مسلمانوں کو ایک پیج پر ہونا چاہیے لیکن ہر جگہ یہ فرقہ واریت اپنی جگہ بنا ہی لیتی ہے وہ علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ نے کیا خوب کہا تھا:

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

آخر میں امریکہ نے اس جنگ کے بعد جو بیان جاری کیا ہے کہ ایران کا نیو کلئیر سسٹم مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے اس پر بہت سے تجزیہ کاروں نے یہ تجزیہ دیا ہے کہ ایران نیو کلئیر سسٹم پر تقریباََ 1970 سے کام کر رہا ہے اور یہ 55 سال کا کام چند سائنس دانوں کو ختم کرنے سے یا کچھ نیو کلئیر سائٹس کو ختم کرنے سے ختم نہیں ہوگا! ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ کچھ سال پیچھے ضرور چلے گئے ہیں لیکن نیوکلیئر پروگرام جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن امریکہ نے جتنا نقصان پہنچایا ہے یا پہنچانے کی کوشش کی ہے اس کے بعد تو تاریخ ثابت کرے گی کہ ایران اپنا نیوکلیئر پروگرام جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari