Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Janam Din Ki Khushiyan

Janam Din Ki Khushiyan

جنم دن کی خوشیاں

انسان کے اپنے یوم پیدائش سے زیادہ اہم دن اس کے لئے اور کون سا ہو سکتا ہے۔ یہ دن باربار آتا ہے اور انسان کو خوشی اور دکھ سے ملے جلے جذبات سے بھر جاتا ہے۔ ہر سال لوٹ کر آنے والی سالگرہ زندگی کے گزرنے اور موت سے قریب ہونے کے احساس کو بھی شدید کرتی ہے اور زندگی کے نئے پڑاؤ کی طرف بڑھنے کی خوشی کو بھی۔ سالگرہ سے وابستہ اور بھی کئی ایسے گوشے ہیں جنہیں شاید آپ نہ جانتے ہوں۔ ایک شاعر تو اس حد تک اپنی تعریف میں چلے گئے کہ کہتے ہیں:

یہ تو اک رسم جہاں ہے جو ادا ہوتی ہے

ورنہ سورج کی کہاں سالگرہ ہوتی ہے

کچھ لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سالگرہ منانا جائز نہیں۔ سب کی رائے سر آنکھوں پر مگر میرے خیال میں اس طرح کے دن یا لمحے دوستوں کے ساتھ وقت گزرانے کا بہانا ہوتے ہیں۔ جس سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہمارے کچھ اپنے ہیں۔ جو ہماری خوشیوں کے پاسبان ہیں۔ 24 اپریل کو میری سالگرہ تھی۔ بقول جون ایلیاء مرحوم کے:

" تو آج کے دن آئے تھے اس جہان خراب میں "۔

میری اس جہان فانی پے آمد 24 اپریل 2001ء کو جنرل سید پرویز مشرف کی ڈکٹیٹرشپ میں ہوئی۔ اسی لیے شاید مجھے ان کی شخصیت کے بارے میں جاننے کا ہمیشہ سے تجسس رہا ہے(ان کی کتاب " سب سے پہلے پاکستان" آجکل میری نظر سے گزر رہی ہے)۔

اس دفعہ منائی گی سالگرہ پہلے سے بلکل مختلف تھی کیونکہ اس میں ہنگامے کا عنصر کچھ زیادہ ہی نمایاں تھا۔ پہلے تو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کی وجہ سے جس میں بطور مسلمان ہم بہت مصروف ہوتے ہیں، کوئی ایسا پروگرام نہیں تھا کہ سالگرہ منائی جاتی مگر پھر نہ نہ کرتے ایک چھوٹا سا پروگرام بنا جو ہماری نظر میں چھوٹا تھا۔ مگر ہمارے وہاں جانے پر ہمیں معلوم ہوا کہ یہ تو ہمارے اندزے سے کئی زیادہ وسیع اور ہنگامہ خیز پروگرام ہے۔

میرے علاوہ ہمارے ایک اور دوست کی بھی اس جہان فانی پے آمد 24 اپریل کو ہی ہوئی۔ البتہ سال کا فرق ضرور ہے موصوف مجھ سے دو سال قبل 1999ء کو تشریف لائے۔ موصوف آنے میں تھوڑی جلدی کر گئے۔ ہمارے ذہن میں یہ ہی تھا کہ سادہ سا کیک کاٹیں گے اور کچھ وقت اکھٹے گزانے کے بعد اپنے اپنے گھر کو روانہ ہو جائیں گے مگر ہمیں کیا علم تھا کہ ہم پر کیا کیا گزرنے والی ہے۔

سب سے پہلے ہم نے ایک دوست کے ہاں افطاری کی مغرب کی نماز ادا کی پھر کیک کاٹنے کا پروگرام بنایا۔ کیک کاٹنے کےلیے ہم نے جو جگہ مختص کی تھی وہاں پہنچے تو حیرت کی انتہا نا رہی کہ کمرہ سالگرہ کے لیے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی دوسرے دوست موصوف جن کی میرے ساتھ ہی سالگرہ تھی کو ایک دوست نے گھماتے ہوئے اس طرح مبارک باد دی کہ دونوں کے سر چکرا گئے۔ مجھے شاید چھوٹا سمجھ کر مجھ پر رحم کیا گیا۔ شاید انھیں چھوٹوں پر شفقت کرنے والی حدیث یاد آگئی ہو۔ دوسرے دوست موصوف کو گھمانے اور چکر دینے والے موصوف مولوی صفت تھے۔ اور مولوی ویسے بھی چکر دینے میں ماہرت رکھتے ہیں۔ اس بات کو مزاح میں ڈال دیجیے گا کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ مولویوں پے طنز کرنا اکثر مہنگا پڑتا ہے۔ بہرحال اس کے بعد کیک کاٹا گیا اور پھر کیک کے ساتھ وہ کیا گیا جس کا وہ بیچارہ حقدار تو نہ تھا لیکن بے بسی کے عالم میں اسے یہ سب کچھ سہنا پڑا۔

عام طور پر ہم نے سن رکھا ہے کہ کیک کاٹنے کے بعد کھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ الگ تھا اس کیک کو باری باری تقریباً سب نے فئیر اینڈ لولی کریم کے طور پر استعمال کیا۔ ایک دو کے علاوہ تو سب نے بالوں کی نمی کے لیے اسے سر پے بھی لگایا۔ اس سب کے بعد کیک بھی حیران تھا اور بال بھی۔ ہاں البتہ یہاں میں اس شخص کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جس نے کیک کی اس قدر تباہی ہونے سے قبل اس کی حفاظت کی حامی بھری تھی مگر اس ہنگامے کے دوران اس کی آنکھ زخمی ہو گئی۔ لہذا اسے کیک کی حفاظت کی بجائے اپنی آنکھ کے لالے پڑ گئے۔ ورنہ وہ مزاحمت ضرور کرتا۔ بہرحال شاید قسمت کو بھی کیک کے ساتھ یہ سب ہونا منظور تھا۔

اس کے بعد کچھ دیر آرام کیا اور کھانا کھایا جس کے بعد یہ محفل بحث مباحثے میں تبدیل ہو گئی۔ جس میں کورنا وئرس کی ویکسین کی حقیقت پر اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں لبرلز کی تحریک یعنی عورت مارچ پر بھی بحث ہوئی۔ بہرحال یہ گفتگو بغیر کسی نتیجے کے چند منٹوں کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ اعتبار ساجد صاحب کا وہ شعر شاید اسی قسم کے حالات کے لیے تھا:

گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر

اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ

بہر حال ہم نے تو سمجھا تھا کہ کہ محفل یہی تک کی تھی اب سب سونے کو ترجیح دیں گئے مگر ہمیں کیا پتہ تھا کہ بقول میرے مرشد حضرت علامہ محمد اقبال: " ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں "

ہمیں چائے پینے کے بہانے سے باہر لے جایا گیا اور شہر کے سب سے مشہور روڑ پر گاڑی روک دی گئی اور ایک ناقابل یقین اور نا بیان کرنے والا عمل سرزد ہوا۔ اتنے انڈے تو شاید زندگی میں ہم نے نا کھائے ہوں جتنی زیادہ تعداد میں انڈوں سے ہماری تواضع کی گئی۔ سر کے بال ایک دفعہ پھر حیران تھے اور شاید اس سوچ میں تھے کہ موصوف ایک ہی بار میں ہمیں خشکی سے پاک کرنے کا پختہ اردہ کر چکے ہیں۔

ایسے خوبصورت لمحات میں وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے۔ خاص طور پر جب آپ کے ساتھ کوئی ایسی شخصیت موجود ہو جس سے آپ کی دلی وابستگی ہو۔ بہر حال خدا خدا کر کے یہ عمل بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ انڈوں سے اتنی تواضع ہوئی کہ سحری میں صرف لسی پینے پر ہی اتفاق کیا۔ احمد فراز صاحب نے ایسے خوبصورت لمحات کے لیے کیا ہی خوب خواہش کا اظہار کیا ہے کہتے ہیں:

آنکھ سے دور نہ ہو دل اتر جائے گا

وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے

زندگی بہت عجیب شے ہے اس میں اگر آپ خوش ہیں تو غم کا عنصر بھی کہیں نا کہیں سے نکل ہی آتا ہے ہاں البتہ آپ اسے چھپا لیں تو وہ علیحدہ بات ہے۔ احمد فراز صاحب نے کہا تھا:

آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر

جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے

آج مجھے اس دنیا میں آئے بیس برس ہوئے ہیں تو ساتھ ہی میرے والد کو اس جہان فانی سے گئے چودہ برس بیت گئے جبکہ میری جنت میری والدہ کے بغیر یہ میری دوسری سالگرہ تھی۔ زندگی میں یہ دونوں رشتے ہی ایک انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ ان دونوں کا چلے جانا ایک بہت بڑا خلا ہے جسے کوئی پورا نہیں کر سکتا۔ یہاں انجم سلیمی صاحب کا شعر مجھے یاد آ رہا ہے۔

ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایہ ہے

آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ پاک اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور اس ماہ مبارک رمضان المبارک کے صدقے جن کے والدین اس دنیا فانی سے حقیقی دنیا کی طرف جا چکے ہیں ان کی مغفرت فرمائے اور جن کے والدین حیات ہیں ان پر والدین کا سیایہ محفوظ فرمائے اور انھوں ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے (امین)۔

آخر میں ان بھائیوں کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں جنھوں نے میرے جنم دن پر میرے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور خاص طور پر ان کا جو اس رات ہمارے ساتھ موجود تھے۔ اللہ پاک سب کو سلامت رکھے (امین)۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq