Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Haya Nahi Hai Zamane Ki Aankh Mein Baqi

Haya Nahi Hai Zamane Ki Aankh Mein Baqi

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کے عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

آج کل اِس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اس لیے میرا اس بارے میں لکھنا کوئی ضروری نہیں اور نہ ہی میں اس موضوع کو اتنا اہم سمجھتا ہوں مگر اس کے بارے میں اتنی بحث دیکھ اور سن کر محسوس کیا کہ بندہِ نا چیز بھی اپنی معمولی سی رائے کا اظہار کر دے۔

میں اِس تحریک جس کو "عورت مارچ" کا نام دیا گیا ہے کو اس ملک میں چلتا دیکھ کر حیران ہوں جس ملک کی بنیاد ہی اُس مذہب پر رکھی گئی جس میں تمام اختیار اس قادرِ مُطلق کو حاصل ہے جس نے یہ کائنات تخلیق کی۔ اور اُس قادرِ مطلق نے سب سے پہلے اشرف المخلوقات میں آدمی کی تخلیق کی۔ اور اس بات کا علم تو سب کے پاس ہی ہو گا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدِ مصطفٰیؐ کی آمد سے پہلے عرب میں عورتوں کے ساتھ کیا کیا جاتا تھا یہ باتیں تو قرآن پاک میں لکھی ہوئی ہیں جس کا مفہوم ہے، " اور جب ان کو معلوم ہوتا کہ ان کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی ہے تو اُن کے چہرے سرخ ہو جاتے اور وہ غصے و جلال میں آ جاتے ہیں اور بالاآخر ان کو زندہ دفن کر دیتے ہیں "۔

اور پھر جب رحمتاللعالمین نبی کریمؐ تشریف لائے اور خالقِ کائنات کا پیغام لوگوں تک پہچایا اور عورتوں کے حقوق کو اسلام میں واضح کیا تب جا کے عورتوں کو معاشرے میں مقام ملا اور جہالت کا دور ختم ہوا۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے کہ جس میں ماں کے پاؤں کے نیچے جنت، بہن پر خرچ کرنا سب سے بہترین صدقہ جبکہ بیوی سے مسکرا کر بات کرنا رب تعالٰی کو بہت عزیز ہے اور بیٹی کو رحمت قرار دیا گیاہے۔اور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اگر میری ماں زندہ ہوتی اور میں عشاء کی نماز پڑھا رہا ہوتا اور میری ماں مجھے آواز دیتی تو میں نماز چھوڑ کر دوڑتا ہوا آتا کہ حکم کریں امی جان۔

اور جب آپؐ ہجرت کے لیے جا ہے تھے تو راستے میں جب اپنی ماں کی قبر دیکھی تو وہاں ہی بیٹھ گئے اور ساری رات قبر پر بیٹھ کر روتے رہے۔ اور صحابہ اکرامؓ نے مرتبے کے بارے میں پوچھا تو تین بار ماں کا نام لیا اور چوتھی بار باپ کا نام لیا اور ہمیشہ بیویوں سے خوش اخلاقی سے پیش آتے اور صحابہ اکرام کو حکم دیتے کہ اپنی بیویوں پر رحم کیا کرو جس طرح میں تمہاری ماں عائشہؓ پر رحم کرتا ہوں۔ اور جب بھی خاتونِ جنت حضرت فاطمہؓ الزہراء سلام اللہ علیہا تشریف لے آتی تو اُن کے احترام میں کھڑے ہو جاتے اور ان کے سر پے ہاتھ مبارک رکھتے اور فرمایا کہ دوسروں کی نسل بیٹوں سے بڑھتی ہے مگر میری نسل میری بیٹی فاطمہؓ سے بڑھے گی۔

وہ حضرت فاطمہ الزہرہؓ سلام اللہ علیہا جو کہا کرتی تھی کہ میرا جنازہ رات کی تاریخی میں نکالنا تاکہ میرے جنازے پر کسی نامحرم کی نظر نا پڑے۔ نبی کریمؐ نے دنیا سے پردہ فرمانے سے چند روز پہلے فرمایا "اور میرے بعد کہیں گمراہ نہ ہو جانا اور خاص طور پر عورتوں کے معاملے میں رب تعالٰی سے ڈرتے رہنا۔ اب ذرہ سوچیں جو مذہب عورتوں کا اس قدر احترام کرتا ہے اور عورتوں کے حقوق کا اس قدر خیال کرتا ہے تو اس مذہب کی خواتین اس قسم کی تحریک کی کس طرح متحمل ہو سکتی ہیں۔؟ ؟ ؟

پتہ نہیں کیوں ہم مغرب کی تہذیب سے اس قدر جڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہاں کی تہذیب کو اپنے اوپر مسلط کرنے کی کوشش کرتےہیں۔؟ ؟ اس تحریک میں موجود بینرز اور کارڈز نہایت شرمناک ہیں اور اسلامی ملک میں اس طرح کے نعرے لگانا نہایت تشویش ناک ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ بحیثیت قوم ہم کس طرف جا رہے ہیں۔

حضرت اماں خدیجہؓ نے فرمایا تھا کہ عورت کا بہترین زیوار پردہ ہے اور پردہ کرنے والی خواتین روزِ قیامت میری بیٹی فاطمہؓ کے ساتھ ہوں گی۔ توجب اسلام کی بنیاد پر بننے والی ریاست میں کچھ اندرونی اور بیرونی طاقیں ایسی تحریک اُبھارنے کی کوشش کر رہی ہیں جس کا مقصد عورت کو مکمل طور پر آزاد کرنا یعنی جس طرح چاہیے کرے۔ پردہ کرے یا نا کرے اُس کی مرضی، اپنا شوہر جس کے بارے میں ہے کے اگر خدا کے بعد کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کو کہا جاتا اس کا حکم مانے یا نہ مانے اس کی مرضی۔ یہ نہایت تشویش ناک عمل ہے۔

میں کسی کے خلاف یا حق میں نہیں ہوں میں تو اس چیز کا حامی ہوں کے عورت پر کسی قسم کا ظلم نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ عورت ہی ہے جو پورے خاندان کو سوارنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر اس قسم کی مغربی نوعیت کی تحریک چلا کر اور اس میں گھٹیااور بےحودہ قسم کے نعروں کا استعمال کر کے آپ کس کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کس چیز سے آزادی کی چاہت رکھتے ہیں۔

انسان کی کیا اوقات کہ وہ کہے کہ میری مرضی یہ بات تو ایک سمجھ رکھنے والےشخص کو سوٹ ہی نہیں کرتی کیونکہ ہم پر مکمل اختیار اُس مالک کریم کا ہے وہ جو چاہے وہ کرے۔ اس مالک کریم کے علاوہ تو اس بات کا حق کوئی نہیں رکھتا کہ وہ کہے کہ جی میری مرضی۔ اس لیے اس تحریک کی سرپرستی کرنے والوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ اسلامی ملک میں اس قسم کی تحریک چلا کر وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

کیونکہ رب تعالٰی نے تو اپنے پیغام میں فرمایا کہ، "اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاوُ اور تمہارے درمیان محبت و رحمت رکھی۔ بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

یہ بات تو ظاہر سی ہے کہ چاہے مرد ہو یا عورت دونوں کے بغیر معاشرہ مکمل نہیں ہو سکتا اور دونوں میں سے کسی ایک کے بغیر بھی نظام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تو کیوں ہم ایک دوسرے سے مقابلے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ کیوں ہم ایک دوسرے سے پیارومحبت اور حسنِ سلوک سے نہیں رہتے۔ اور آخر میں ہمیں اس قسم کی گھٹیا تحریکیں دیکھنی پڑتی ہیں۔

رب تعالٰی ہمیں اس قسم کے مغربی پروپگنڈوں سے پناہ عطا فرمائے اور میرا جسم میری مرضی کی بجائے اللّٰہ کی جان اُسی کی مرضی کہنے اور اسلام کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ لہذا میں اپنے پیرومرشد اور حضرت علی المرتضٰی شیرِ خدا پیرِ کامل کے سچے مرید حضرتِ علامہ محمد اقبال کے اس پیغام و دعا پر اپنی بات مکمل کروں گاکہ

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے تیری جوانی بے داغ رہے

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed